میری تاریخ بن کے زندہ ہے
کون کہتا ہے وہ اجالا گیا
(افضل مراد)
جب محبت اور تعلق میں وفا نہ ہو۔کشتیء سیاست کا ناخدا نہ ہو،منہ سے نکلے الفاظ میں بصیرت،دور اندیشی اور خیر کی دعا نہ ہو۔جملہ انصاف ہم زمانوں اور ہم وطنوں سے کسی صورت ادا نہ ہو۔اہل علم و دانش سے عوام کو واسطہ نہ ہو۔فکری لحاظ سے بانجھ معاشروں میں بھلا کیوں کوئی اغواء نہ ہو،کسی کا پیارا کسی سے جدا نہ ہو،آخر کیوں کرسی کی چار ٹانگوں کیلئے دوسرے انسانوں کی ٹانگیں کاٹ کر ٹانگوں کے پیوند لگا کر اس پر اجارہ نہ ہو۔کسی بھی دستار کی بے حرمتی میں پیش پیش کیوں کوئی جہلا نہ ہو۔وہاں فکرِبزنجو بھلا کیسے سمجھا اور سمجھایا جاسکتا ہے۔اپنی سیاہ دنوں سے عوام اور معاشرے کو نجات دلانے کیلئے میر غوث بخش بزنجو نے جیل کی صعوبتیں کاٹیں اور غداروں کی صف میں شامل ہوئے۔کیا یہ عجیب نہیں جنہیں غدار قرار دیا گیا ان کے کھاتے میں معاشرتی نا ہمواری،کج روی اور اخلاق سے عاری تربیت یا رہنمائی کا الزام باوجود بسیار کوششوں کے اب تک کوئی ثابت نہیں کرسکا۔بلکہ تاریخ نے ثابت کردیا ہے کہ وہ تو محبت وطن تھا اور اس دور کے اصل مجرمان کی غداری اب کھل رہی ہے۔جنہوں نے فرقہ پرستی کو ہوادی جنہوں نے لسانی جھنجھٹ کھڑے کیے۔جنہوں نے تعصب،بدعنوانی اور مافیاز کو فروغ دیا۔ان کے پیدا کردہ یہ سارے بھوت مردہ جانوروں کا کاروبار کررہے ہیں۔مصنوعی مہنگائی سے عوام کا خون چوس کر انھیں مار رہے ہیں۔جعلی ڈگریاں فروغ دے کر جاہلوں کی تعداد میں اضافہ کررہے ہیں۔ملکی سرمایہ لوٹ کر بیرون ملک منتقل کرنے کے گھناونے کاروبار میں ملوث ہیں۔اپنی خدشات کے پیش نظر میر بزنجو ملک کو اس دلدل میں گرنے سے بچانے کیلئے صاف ستھری سیاست اور ایک صاف ستھرے نظام کا حامی تھا۔اس نے دانشوری کا حق بھرپور انداز میں ادا کیا اور کنفوشس کے اس قول پر قائم رہا کہ’’میرے عزیز اس انداز سے جینے کا تہیہ کرلو کہ جس نے تمہیں ستایا ہو وہ نادم ہوجائے اور اسے خود احساس ہوکہ اس نے تمہارے ساتھ زیادتی کی ہے۔‘‘
ایک ایسا ہی احساس ندامت سابق حکمرانوں کے حصے میں آیا۔جسے آج مختلف ٹی وی چینلوں پر بیٹھے تجزیہ نگار دہرا رہے ہیں۔اخبارات اور کتابوں میں نیپ سیاست و حکومت پر لکھنے والے مورخین بغیر کسی پس وپیش کے اس وقت کے غیر سیاسی اور آمرانہ فیصلوں پر مسلسل کڑھ رہے ہیں۔فرض کریں۔ماما عبداللہ جان جمالدینی کے لٹ خانہ اور بابا بزنجو کو اس وقت یہ ٹی وی چینل میسر ہوتے۔انہیں آزادی صحافت کا موجودہ وسیلہ ہاتھ آتا۔شاید آج ملک اور بلوچستان کی سیاست کا نقشہ نہ صرف مختلف ہوتا بلکہ کروڑوں عوام انکے تراشیدہ جمہوریت سے مستفید ہورہے ہوتے۔البتہ یہ کہا جاتا ہے یہ آزادی اظہار انہی دانشوروں کی مرعون منت ہے جنہوں نے جمہوریت کی بقاء اور جمہوری اقدار کے فروغ کیلئے قربانیاں دیں۔جنہیں اس وقت غدار وطن کا لقب مِلا اور آج ان کی دانشمندی کے گن ان ایوانوں میں گائے جاتے ہیں۔جن پر آمروں کے بھوت کا ہمیشہ سایہ رہا۔ادب ،سیاست اور صحافت میں اعتبار کی چاشنی کسی قوم کی تعمیر و ترقی کی شناخت کے اہم ستون ہیں۔یہ خلا اس وقت تک پُر نہ ہوسکے گا۔جب تک بابا بزنجو کی سچائی پر مبنی تعلق کو پروان نہیں چڑھایا جاتا۔بقول ڈاکٹر شاہ محمد مری ’’ان کے نام کا اپنا ایک ذائقہ ہے۔ایک مخصوص خوشبو ایک شباہت ہے۔اور ایک خاص مجسمہ نظروں میں گھومتا ہے۔ان کے حلقہ احباب میں مخلص سیاسی ورکر،پڑھے لکھے دانشور ،ادیب فلسفی اور صحافی ہوتے تھے”۔
ایک اور جگہ یوں رقم طراز ہیں ’’ میر غوث بخش بزنجو جمہوریت کو خود اپنے آپ پر نہیں اپنی آل اولاد پر اور اپنے حلقہ احباب پر باقاعدہ نافذ کررکھا تھا۔وہ صرف ریاستی آمریت کے خلاف نہ تھا۔بلکہ وہ تو نجی زندگی میں بھی آمرانہ رویوں کیخلاف لڑتا رہا۔‘‘ (عشاق کے قافلے بابائے بلوچستان میر غوث بخش بزنجو)۔
آج ہم اسلاف کی جن قربانیوں پر اترارہے ہیں اگر ان جیسا اپنے اندر اوصاف پیدا نہیں کرینگے تو صدیوں پیچھے ریورس لگنا ہمارا مقدر ہوگا۔انہوں نے اس وقت کہا تھا کہ سیاست مچھلی بازار تب بنتی ہے جب اس کے تالاب میں بدعنوان مچھلیوں کی فارمنگ ہوگی۔جن کی غلط خواہشات کو آشیرباد حاصل ہوگا۔جب انہیں اس تالاب سے نکالا جائے گا تو ان کی بد بو دور تک پھیلے گی۔
بابا بزنجو کے لہجے میں سیاسی ٹہراؤ ،سنجیدہ،عاجزانہ جھکاؤ نے اس وقت اور انتقال کے بعد انہیں قدآور شخصیات کی صف میں لاکھڑا کرنے کا موجب بنایا۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بابا اور اسکے رفقاء کے ساتھ ایسا کیوں ہوا۔بابا اپنے سوانح عمری میں یوں کہتے ہیں۔
’’میں نے شروع سے ہی تصادم سے گریز کی کوشش کی لیکن بھٹو صاحب کے موقع پرستی کی سیاست اور طاقت واختیارات کی ہوس اور اسکے ساتھ میرے کامریڈز کے غیر لچک دار موقف نے میرے غیر متصادم حل تلاش کرنے کی کاوش کو ناکام بنایا‘‘۔(کتاب مقصد سیاست مرتب بی ایم کٹیُ)
جنہیں ناپ تول کر بولنا آتا تھا۔جنہیں اپنی اور دوسروں کی عزت نفس کا پاس تھا۔جنہیں سیاست میں خرید و فروخت سے نفرت تھی۔جنہیں اپنی تاریخ سے شناسائی تھی۔جنہیں اپنے آج سے برتاؤ کا سلیقہ آتا تھا۔جو اپنے کل سے بخوبی واقف تھے۔ان پر کسے فخر نہیں ہوگا۔اور ان کے ساتھ غلط برتاؤ کرنے والوں کو اگر شرمندگی نہیں انہیں ضرور دلدل میں پھنسنے کا احساس ہوگا۔تاریخ میں یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے جن معاشروں نے اپنے اہل علم و دانش کی عزت کی انہیں ان کا جائز مقام ملا اور وہی قدم قدم پر سرخرور ہے۔
بابا بزنجو قومی سطح کے سیاستدان تھے۔انہیں مقامی سطح پر الجھائے رکھا گیا۔وہ باکردار انسان تھے۔ان پر بدکرداروں کو قوفیت دی گئی ۔ان کا قبائلی مائنڈ سیٹ سیاسی و معاشرتی علوم کی وجہ سے اپ سیٹ ہوچکا تھا۔اس لیے انہیں بار بار کمزور ہونے کا احساس دلایا گیا مگر وہ قبائلی انا کورام کرنے کی جیت پر نازاں تھے۔
بڑی مشکلات رکاوٹوں کے باوجود بھی انہوں نے قبائلی طاقت کا سہارہ نہیں لیا کیونکہ انہیں عوامی طاقت و محبت سے قربت حاصل تھا۔ اور انکے سیاست کے محور کا دائرہ اسی کے طفیل وسیع ہوتا جارہا تھا۔وہ ملک اور بیرون ملک یکساں طور پر پسند کیے جاتے تھے۔ ایک ان پڑھ ،لالچی اور خود غرض سماج کے ایوانوں میں ایسی شخصیات کو بھلا کیسے برداشت کیا جاسکتا ہے۔اس ملک میں بھی ایسا ہی ہوا مسلسل رسہ کشی ،بلاوجہ دشمنیاں پیدا کرنا آنے والے کل کے خوف میں مبتلا رہنماؤں اور انکے حامیوں کو تاریخ میں زوال آتا رہا ہے۔اگر یقین نہ آئے تو مختلف ممالک کے سیاسی تاریخ کی ورق گرادنی کریں اور پھر عاقبت نااندیشوں کو کوستے رہیں کیونکہ ہمارے ہاں ابھی تک امید کی کرن کو محض تصور کیا جاسکتا ہے۔اس کے نمودار ہونے اور روشنی سے فیض یاب ہونے کیلئے محکوموں کی دادرسی کا معاملہ ابھی باقی ہے۔انہیں انکا جائز مقام دیا جانا ناگزیر ہے۔یہی بابا بزنجو کا فلسفہ ہے جس پر آج کا سنجیدہ اور فہمیدہ دانشور ابھی تک قائم ہے۔
ملک فیض محمد یوسفزئی دہوار کی کتاب ’’یاداشتیں‘‘ میں وہ یوں رقم طراز ہیں کہ’’میر غوث بخش بزنجو کو سیاسی تحریکوں میں بار بار جیل جانا پڑا مگر وہ جمہوریت عوامی حقوق اور بلوچستان کی خود مختاری سے دستکش نہ ہوئے 1970میں میر صاحب قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ون یونٹ ٹوٹنے کے بعد گورنر بلوچستان بنے آپ نے کئی ممالک کا دورہ کیا‘‘ میر بزنجو شرافت کے بے حد قائل تھے۔خدا ترس ہونے کے ساتھ مظلموں سے بے حد ہمدردی رکھتے تھے۔ایک جگہ ملک فیض دہوار، میر بزنجو کے ایک خط کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں’’برادرم اس قیدی کو بطور مشقتی اپنے پاس رکھو شریف نوجوان ہے اور مصیبتوں کا مارا ہوا بھی۔‘‘ میر غوث بخش بزنجو ایک ممتاز دانشور تھے۔ملک اور بیرون ملک اہل علم و دانش میں انکے انٹرویو ز،اخباری بیانات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔عبداللہ جان جمالدینی کی کتاب’’لٹ خانہ‘‘ میں تحریر ہے کہ سرداروں کو سیاست میں لانے اور ان کا سیاسی استاد مانے جانے والے میر غوث بخش بزنجو تھے۔یہ بات بالکل درست ہے۔اگر میر صاحب اپنی دانشمندانہ پالیسیوں میں کامیاب ہوتے تو اقتدار کے باولے کہاں جاتے۔آج موجودہ سیاسی رسہ کشی دیکھ لیں تو آپ کو آج سے پینتالیس سال قبل جہد آزما سیاست کرنے والوں کی شرافت اور بردباری کی داد دینی پڑے گی۔اگر آج بھی فکر بزنجو کو سمجھنے اور پیروی کی کوشش کی جائے۔ان کی عالمانہ بصیرت سے فیض حاصل کیا جائے۔ماضی کی لڑاؤ اور حکومت کرو کی پالیسی سے باز رہا جائے۔نا انصافیوں کا سنجیدگی سے ازالہ کیا جائے۔لٹیروں کی دیانتداروں پر ترجیح دینے والوں کی حوصلہ شکنی کی جائے ہر سطح پر سچ کا کڑوا گھونٹ پینے کی جرات پیدا کی جائے۔ شاید ذہنی کھنڈرات میں موجود بھوتوں سے چھٹکارہ مل سکے۔جس کی حسرت و خواہش لے کر میر بزنجو آئے تکالیف برداشت کیں اور جاتے جاتے محبت اور انسانیت کا درس دے کر رخصت ہوئے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے