سانس جیسے موم بتی کانچ پر رکھی ہوئی
زندگی ہے ، ہلکی ہلکی آنچ پر رکھی ہوئی
میرا سرمایہ سے تھوڑی روشنی تھوڑا دھواں

ایک شخص جو غم اور خوشی کو بیک وقت محسوس کرتا ہو، جذبات کی تفریق و تقسیم کا ہنر جانتا ہو ، فن کے معاملے میں الجھتا ہو دوسروں کو الجھاتا ہو، پیچیدہ گھتیاں سلجھانے کی سعی کرتا ہو ، اپنے سچ کے ساتھ جڑا ہو، اپنے طور خیر کی راہ نکالتا ہو، جو گھر والوں کا سایہ ہو علم و قلم کا سرمایہ ہو ، اس معاشرے میں اُسے تو قدم قدم پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اُسے بعض موقعوں پر بنا محاذ کے لڑنا پڑے گا۔ کیونکہ یہ معاشرہ حسد، منافقت اور جہالت کی آگ اگل رہا ہے ۔ جو جوہر نایاب کو کسی نہ کسی طور نگل رہا ہے۔ یہاں سوچنے سمجھنے ، شرافت، دیانت، اخلاقی اقدار اور محبت کرنے والوں پر زمین تنگ کیا جاتا ہے ۔ بلا وجہ دھتکارا جاتا ہے، ٹینشن ، شوگر اور بلڈ پریشر کی بیماری دی جاتی ہے۔ جو ایسے رویوں کا مقابلہ کرنے کی سکت رکھتے ہوں انہیں غربت اور تنگدستی سے مدبھیڑ ہونا پڑتا ہے۔ اور کچھ نہ ہو تو تعصب اور گروہ بندی میں مبتلا لوگوں سے واسطہ ضرور پڑتا ہے۔ اب سوچیے دانیال جیسا ایک حساس نوجوان ان جھنجھٹوں کے بیچ کیسے زندہ رہ سکتا ہے ۔ اس کا ایک معمولی آپریشن سرطان میں تبدیل کیوں نہ ہو۔ وہ مزید علاج سے محروم کیوں نہ ہو۔ کیونکہ جہاں کوئی لیڈر ایک دھمکی پر خصوصی طیارہ لے کر میدان چھوڑتا ہو۔ جہاں سیاستدانوں اور ساہوکاروں کے بچوں کے کھلونے لانے کے لیے طیارے چلتے ہوں۔ جو اپنی معمولی بیماری کے علاج کے غرض سے برطانیہ اور امریکہ جاتے ہوں ، اور لاکھوں میں ٹی اے ڈی اے بھی لیتے ہوں۔ جو اربوں روپے قرض لے کر معاف کرنے کا گُر جانتے ہوں۔ جو اپنے پالتو جانوروں کے لیے الگ سے ڈاکٹر مقرر کرتے ہوں۔ دانیال کو اِسی بات کا قلق تھا۔ جبھی تو کہتا ہے۔
جو آنکھوں کے اندر ابلتا رہاہے
جو دل پہ دھواں بن کے چلتا رہا ہے
جو سوچوں میں چہرے بدلتا رہا ہے
میں اب سب لکھوں گا
دلوں میں ہمارے کدورت ہے کتنی
محبت پری خوبصورت ہے کتنی
بدن کو بدن کی ضرورت ہے کتنی
میں اب سب لکھوں گا
یہ زر کے پجاری کہاں جارہے ہیں
زمیں کے ذخائر کوہتھیا رہے ہیں
تو کیاخود کو دولت میں دفنا رہے ہیں
میں اب سب لکھوں گا
گلزار نے شاید دانیال کے لیے ہی کہا تھا
دیکھو آہستہ چلو اور بھی آہستہ ذرا
دیکھنا سوچ سنبھل کر ذرا پاؤں رکھنا
زور سے بج نہ اٹھے پیروں کی آواز کہیں
کانچ کے خواب میں بکھرے ہوئے تنہائی میں
خواب ٹوٹے نہ کوئی، جاگ نہ جائے دیکھو
جاگ جائے گا کوئی خواب تو مر جائے گا
زندگی کے ایک پراسرار حقیقت ہے۔ ایک عالم فاضل کے لیے موت سے کشید کی ہوئی قوت ہے۔ جب نہ جھوٹ اور نہ ہی سچ کو اس سے عافیت ہے۔ تو پھر سچ کا سہارا کیوں نہ لیا جائے۔ دانیال کا یہ فیصلہ درست تھا جب ہی تو وہ طبی طور پر ایک عام آدمی کی موت کے سپرد ہوا مگر روحانی طور پر وہ ہمیشہ کے لیے امر ہوگیا ہے۔ اس کی تخلیق و تحریر کردہ کتابیں اس کی یاد میں منعقدہ تقریبات اس کے بے شمار شاگرد اسے یاد کرنے والے لوگ یقیناًٰ موت کا منہ چڑاتے رہیں گے۔ دانیال جیسے لوگ ہی موت سے لڑنا جانتے ہیں۔ غیر فطری عناصر سے الجھنا جانتے ہیں۔ وہ اپنے ماضی سے باخبر رہتے ہیں۔ مستقبل کے دل میں اتر کر حال لکھتے ہیں۔ ظاہر ہے دانیال جیسے وطن دوستوں کو ایسے بے لگام، سُست ، ناکارہ اور بزدل عوام پر غصہ تو آتا ہے۔ جو ووٹ بیچ کر زبان بندی کا اقرار کرچکے ہیں۔ قرض لے کر نوکریاں خریدنے پر آمادہ ہیں۔ حرام گوشت پر شکر بجالاتے ہیں ، اغواء بھتہ خوری، قتل و غارت گری اور قصور جیسے واقعات پر خاموش تماشائی بنتے ہیں۔ اپنے اعمال علمی قوت کی بجائے اسلحہ، بے شمار دولت ، تعویز گنڈوں کو ذریعہ نجات سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شہر میں ایک آدھ فائیو سٹار ہوٹل کے مقابلے میں سینکڑوں تھری، فور اسٹار پر مشتمل ہسپتال تعمیر ہوچکے ہیں۔ ہزاروں کوچ ، ٹوڈی اور ایمبولنس کوئٹہ کراچی محض مریضوں کو لانے لے جانے کا کام کررہے ہیں۔شہر میں صبح سے شام تک امرا، وزراء اور اعلیٰ سرکاری ملازمین کی گاڑیوں اور ایمبولینسوں کے ہوٹر بجتے ہیں ہر وقت ایک خوف کا عالم رہتا ہے ۔۔۔۔۔۔ اسی تناظر میں دانیال کی نظم کا ایک حصہ ملاحظہ ہو۔
میں شہر ازم میں
ہر بزم سے باہر
خود اپنی نظم سے باہر
بہت بے کار ہے مصرف پڑا ہوں
سوچتا ہوں
وقت کا پہیہ تو گردش میں ہے
میں کیوں رک گیا ہوں
کیا سبب ہے میری مفعولیت کا
میرے کرنے کے لیے کردار
قاتل کا بھی ہے
مقتول کا بھی
میں سوچتا ہوں
راستہ ڈھونڈوں کوئی مشغولیت کا
ماردوں یا آپ مر جاؤں
دانیال غالب ، میر ، سودا، فیض ، عطا شاد اور اپنے مرحوم بابا سعید گوہر کی ادبی روایت میں ڈوب کر علم و شعور پھیلانے نکلا تھا ۔ اسے کیا خبر تھی کہ علم و دانش پر موت کی ایسی بھی گرفت ہوسکتی ہے۔ وہ تو بے ضمیر انسانوں کو موت کے مسافر سمجھتا تھا ، دولت کمانے کے لیے روح سے خالی اور بے ذائقہ شعر و ادب سے وابستہ شعراء و ادباء کو مردہ خیال کرتا تھا۔ گرنے کی حد تک چاپلوسی کے ساتھ قصیدہ گوئی میں امتیاز حاصل کرنے والوں کو مریضانہ ذہن کا مالک کہتا تھا۔ مگر ان میں سے کوئی نہیں مرا، سب زندہ ہیں۔ خباثت کی آبِ حیات پینے والے زندگی میں زیادہ عمر پاتے ہیں۔ کیونکہ تاریخ میں بد ترین مثالوں کے تسلسل کو زندہ رکھنا زندگی کا خاصا ہے ۔ شاید ہمارے ہاں کچھ زیادہ ہی تنزلی ہے اس لیے خیر اور شرعدم توازن کا شکار ہوچکے ہیں۔ اب اس میں عام آدمی کے لیے تفریق کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ شاید بے حسی کی اصل وجہ بھی یہی ہے ۔ اسی لیے دانیال دیکھنے ، چھونے، تولنے کی بجائے سونگھنے کی بات کرتا ہے ۔
رات سونگھتی جائے
جاگتی صداؤں کو ، بھاگتی ہواؤں کو
راستوں کی وحشت کو، منظروں کی حیرت کو
راست سونگھتی جائے
چاند کو ، گھٹاؤں کو، خوف کو بلاؤں کو
جھیل کے کناروں کو، سب کے سب ستاروں کو
رات سونگھتی جائے
کاغذوں کو لفظوں کو، روشنی کی نظموں کو
شیلف کی کتابوں کو، شاعروں کے خوابوں کو
رات سونگھتی جائے
دانیال اپنے فن میں پختہ نہ ہوتا ، اپنے مضامین پر دسترس نہ رکھتا ، اپنی سوچ میں یکتا نہ ہوتا، اپنے اعمال کی پوشاک سے نمایاں نہ ہوتا، زمانے کے رنج و الم کی رہنمائی کا حق سنجیدگی سے اد ا نہ کرتا تو اس کے نام اور بیماری پر چندہ جمع کرنے والے کس قد سرگرم ہوتے جس کا تصور نہیں کیا جاسکتا ۔ فوٹو سیشن والے بھی صبح شام اس کے گھر کے چکر کاٹتے ۔ اور پھر دانیال کو ایسے مضامین باندھنے کی ضرورت کیوں پڑتی۔
روح چاہیے تم کو
یا بدن خریدو گے
موت سب سے سستی ہے
سامنے کی شیلفوں میں، رنگ رنگ آنکھیں ہیں
ساتھ نیند رکھی ہے، خواب اس طرف کو ہیں
سب سے آخری صف میں، حُسن کی کتابیں ہیں
خیر کے فسانے ہیں، فرسٹ فلور پر سائنس
میگزین فیشن کے، اور علم کی دولت ہے
آج کی ضرورت ہے، سب سے بیش قیمت ہے
اور یہ بھی کہتا ہے:
جانے کس زمانے سے ، اس زماں میں آئے ہو
یہ جہاں نہیں صاحب، تم دکاں میں آئے ہو
ایسا درد ایسی آہ ایسی بیداری کے مضامین دانیال ہی باندھنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ یہ وہ آگاہی ہے جس کی ہمیں چنداں ضرورت نہیں۔ ہمیں ذلیل ہونا، ذلت سے بے خبر رہنا سوٹ کرتا ہے ۔ جب کسی سچے فنکار کے اِرد گرد ایسا ماحول پیدا ہوجائے تو اُسے کہنا پڑتا ہے:
خموشی کے کمرے کے کونے میں چھپ کر
صدا رو رہی ہے
اندھیرے کے شیشے کے اس پار تھک کر
ضیا رو رہی ہے
چراغوں کی قبروں کے کتبوں سے لگ کر
ہوا رو رہی ہے
مری اوک کی سیپ میں پھول رکھ کر
دعا رو رہی ہے
فنا بن کے پیڑوں کے سائے میں رک کر
بقا رو رہی ہے
میرے لوگو تمہیں اگر اپنے آپ سے محبت ہے یا اپنوں سے محبت ہے تو دانیال کی جانکاری سے خود کو جوڑے رکھنا، کیونکہ بلاؤں کی بلائیں اپنے سر لینے والے نا بغہ روزگار لوگ روز جنم نہیں لیتے۔ علم کو لتاڑ پچھاڑ کر کب تک ذلت سے جئیں گے۔ دانیال جیسے مضبوط اور منور انسان روٹھ کرنہیں جاتے اپنے حصے کا کام کرکے ہی جاتے ہیں ۔ لیکن دانیال سے محبت کرنے والے ہر حال میں اپنے رب سے اپنے عوام سے اپنے رہنماؤں سے گلہ کرنے کا حق تو رکھتے ہیں۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے