کر شن چند ر نے مجھ پہ ذہنی و ار دات ایک ادیب ، افسا نہ نو یس اور نا ول نگا ر کی حیثیت سے نہیں بلکہ نظر یا تی حو الے سے کی تھی ۔ میں نے اس کا نا ول ’’ غدار‘‘ پڑ ھا تھا ۔ اور مکر انی بلو چو ں کے بقو ل وہیں ’’کلٹی ‘‘ہو گیا تھا ۔ نظر یا ت بن پا ؤ ں ،بے پنکھ ،بنا پتو ار اور بن شنا ختی کا رڈ کے سفر کر تے ہیں ۔ نظر یا ت ، ما ں کی لوری کے ذریعے رو ح میں سر ایت کر جا تے ہیں ،یا ، چر وا ہے کی بانسری کی با ز گشت میں شا مل ہو جا تے ہیں ۔ یہ مکیش و سا حر کو و سیلہ بنا کر دل پر قا بض ہو جا تے ہیں ، یا پھر کسی پشا ور ایکسپر یس ، کسی پو دے ،کسی کتا ب کے کفن اور کسی چا ند ی کے گھا ؤ ، کسی الٹے در خت کے صفحا ت کو سہا را بنا کر ذہنو ں کو مسخر کر تے ہیں ۔۔ نظر یا ت عمر ،جنس ، قبیلے ،عقید ے کا کو ئی امتیا ز نہیں کر تے ۔ کو ئی حفا ظتی اقد اما ت ،کو ئی دفا عی نظام کا م نہیں آتا ۔ نظر یا ت کی سر حد یں نہیں ہو تیں ۔ اور لہذا نظر یا ت کی سر حد وں کا دفا ع نا می فر ضی فر یضہ بھی نہیں ہو تا ۔
گو کہ آج کے مخصو ص ’’بر ے ‘‘ حالا ت میں نظر یہ کی با ت کر نا ایک بد عت تصور ہو تا ہے اس لیے کہ اب بہت سے لو گ ’’نظر یا ت سے با لا تر ہو کر ‘‘ سو چنے کا دعویٰ کر نے کی جر ات رکھتے ہیں ۔ اِ ن ’’بر ے ‘‘دنو ں میں ’’ادب بر ائے ادب ‘‘اور ’’ادب بر ائے زند گی ‘‘ کی با ت خلا فت عثما نیہ کے دربا ر کے ملا ؤ ں کے بے معنی بحثو ں کی حیثیت اختیا ر کر چکی ہے ۔ تحر یک ، عوام اور زند گی ،اور اس زند گی کو سند ر بنا نے والا لکھا ری ،سب کے سب فر ی ما رکیٹ کے عا رضہ میں مبتلا کر دیے گئے ہیں ۔
کر شن چند ر کے عہد میں البتہ ،معر وض ہی اس طر ح کے تھے کہ ادیب عو ام سے کٹا ہو ا نہ تھا۔انگر یز کے خلا ف ایک زبر دست عوامی تحر یک چل رہی تھی ،مزدور ادیبو ں کو اپنے جلسوں میں لے جا رہے ہو تے۔ اسی طر ح ادیب اپنی کا نفر نسوں میں مز دوروں کی بو دوبا ش کی تفصیل بیا ن کر رہے ہو تے۔ اس طر ح عوام اور ادیب ایک دوسرے کی سوچ نکھار تے سنوارتے جا تے تھے ۔ کر شن چند ر ’’روٹی سب کے لئے ‘‘ اور ’’ ووٹ کا حق سب کے لئے ‘‘والا تھا ۔ ا سے اس بڑے معر کے میں اپنے لئے ’’کمیو نسٹ ‘‘ کے علا وہ کسی قسم کے ا لقا با ت کی ضر ورت کبھی پیش نہ آئی تھی ۔
کرشن چند ر سر کس کے با ہر کھڑا وہ سیلز بو ائے ہے جو اپنی چکنی چپڑ ی با تو ں سے آپ کو گھیر گھا ر کر ، ٹکٹ خر ید وا کر اند ر دھکیل دیتا ہے ، یہ جا نتے ہو ئے کے اند ر تو شیر کا کچھا ر ہے ، مو ت کا کنو ا ں ہے ، ضیا ء الحق ہے ۔ ہمارے حمید بلو چ کو بھی تو ، اسی طر ح کے کسی سیلز بو ائے نے،مچ جیل کے تختہ دار پہ لٹکو ایا تھا ۔ آپ سب بھی تو کسی نہ کسی ایسے ہی سیلز بو ائے ،یا سیلز گر ل کے ڈسے ہو ئے لو گ ہیں ۔ یا ، کیا خبر آپ نے خو د بھی بہتو ں کا بیڑا ، ’’پا ر‘‘ کر لیا ہو ۔ کر شن چند ر قبیل کے لو گ بڑی بے قر اری عطاکر تے ہیں ۔ بڑی نر م دلی بخشتے ہیں ،بہت سخت جا ن بنا تے ہیں ۔ یہ اپنے قا ری سے قلم اٹھو اتے ہیں ، شا عری کر واتے ہیں ، نا ول نگا ری کر اتے ہیں ، جلو س نکلو اتے ہیں ،بغا وتیں اور انقلا ب برپا کر واتے ہیں۔
کر شن چند ر کے مو ضو عا ت کا اچھا خاصا حصہ پنجا ب سے متعلق ہے ۔ یہ شخص پنجا ب پہ عا شق ہے ۔ پنجا بی ثقا فت ، پنجا بی زبا ن ، پنجا بی سر زمین ہی گویا ،اس کا تکیہ کلا م ہیں ۔ ذرا ملا خط فر ما ئیے ! ’’پنجا ب کے تین مذ ہب تھے لیکن اس کا دل ایک تھا ، اس کا لبا س ایک تھا ، اس کی زبا ن ایک تھی ، اس کے گیت ایک تھے ، اس کے کھیت ایک تھے ، اس کے کھیتو ں کی روما نی فضا اور اس کے کسا نو ں کے پنچا یتی ولو لے ایک تھے ‘‘۔ کر شن چند ر پنجا ب کے سا تھ حب الو طنی میں ایک اور جگہ یو ں لکھتا ہے ’’ لاکھو ں با ر لعنت ہو ان راہنما ؤں پر ،اور ان کی آئند ہ سا ت پشتوں پر جنہو ں نے اس خو بصورت پنجا ب ،اس البیلے ،پیا رے سنہر ے پنجا ب کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے اور اس کی پا کیز ہ روح کو گہنا دیا اور اس کے مضبو ط جسم میں نفر ت کی پیپ بھر دی ‘‘۔
کر شن چند ر کی یہ پنجا ب دوستی اس کی ادبی زند گی کا بہت بڑا حصہ تشکیل کر تی ہے ۔ سچی با ت یہ ہے کہ کر شن چند ر کا یہ پہلو بہت بر ی طر ح نظر اند از ہو گیا ، ہم سب سے۔
اسی طر ح کر شن چند ر کی تحر یر وں کا ایک بڑا حصہ تقسیم ہند کے وقت مر تکب اُ ن غیر انسا نی جر ائم سے متعلق ہے جن میں ہند و،سکھ اور مسلما ن ’’پنجا بیو ں‘‘ نے ایک دوسرے کے قا فلو ں کو لوٹا ، ایک دوسرے کو قتل کیا اور درند گی کے سا تھ عو ر تو ں کی عصمت دری کی ۔ ہم بلو چ لو گ ان تما م ہو لنا کیو ں سے بالکل نا بلد ہیں کہ اُس وقت ہماری ایک آزاد ریا ست تھی اور تقسیمِ ہند اور ہند و مسلم فسا دات سے ہمارا بر اہ راست کو ئی واسطہ نہیں پڑا تھا۔ یہ افتا د تو کر اچی والو ں یا پھر پنجا بیو ں ہی پر پڑ ی تھی۔ اس پس منظر سے نا آشنا ئی ہی کی وجہ سے تو بلو چ ،پنجا بی کو آج تک سمجھ نہ پا یا۔ بلو چ کو پنجا بی کے اس ما ضی قر یب سے ضر ور مکالمہ کر نا چا ہیے جس کی وجہ سے دو نو ں اقو ام کے ’’آج ‘‘ میں مر دم کُش تلخیا ں مو جو د ہیں ۔ کیا خبر کہ پنجا بی کی حاکمیتِ پا کستا ن کے سا تھ وابستگی اور عدم تخفظ کا شد ید احسا س ا سی قتل و غا رت کے دریا کی بد صورت دَین ہو ۔ عز یز وں کی لا شیں ذہنو ں کو بہت بڑے تالے لگو ا د یتی ہیں ۔ مگر سلا م ہے اس عمو می دھا رے کے خلا ف کھڑ ے ہو جا نے والے اسی پنجا ب دھر تی کے اُن با سیو ں پر جو ا بلتے عذابو ں کے با و جو د بو لتے بو لتے مر گئے ، جو جلا و طنیو ں میں یا رِ نامہ بر کی آس میں انکھوں کی دید کھو گئے اور جو تہمتِ عشق کا قتل نا مہ لیے شا ہی قلعو ں کو آبا د کر تے رہے۔ کتنا مشکل ہے دھا رے کے خلا ف کھڑے ہو جا نا ۔ کتنا مشکل ہے پنجا بی کا تر قی پسند ہونا !۔ بلو چ سو چ کا عمو می دھا را خو اہ یہ تسلیم کر ے یا نہ کر ے مگر ہمارا روشن فکر طبقہ ،پنجا بی تر قی پسند کے استقلا ل اور ایمان کو بہت احتر ام،اور بہت اپنا ئیت سے پیا ر کر تا ہے ۔
مگر کر شن چند ر کا مو رچہ تو آج کے پنجا بی روشن فکر کے مو رچے سے کہیں زیا دہ مشکل تھا ۔ اُس کے وقت یہ سب کچھ ما ضی نہ تھا یہ تو اس کے اوپر گز ر رہا تھا۔ تقسیم کے نا م پر قتل ، عقیدے کے نام پر آتش زنی اور اعتقا د کے نا م پر گینگ ریپ ۔ اور اس بد مست دھا رے کے خلا ف ’’نہ ہند و بننا نہ مسلما ن بننا ‘‘کتنے بڑے اخلا قی امتحا ن سے گز رنا ہو تا ہے ۔کرشن چند ر نے انسا نو ں میں ختنے کی بنیا د پر امتیا ز کو ہر ہر جگہ مستر د کیا ۔ مگر یہ بڑ ا پن ایسے ہی تو نہیں آتا ، یہ تو ادارتی کشٹ و ریا ضت کی بخشش ہو تا ہے ۔ اس بڑے پن کو وہ یو ں بیا ن کر تا ہے ۔ ’’سُند ر سنگھ کمیو نسٹ ہے، اس لئے فر قہ وارانہ عنا د سے بہت دور رہتا ہے ‘‘۔
کر شن چند ر نصف صدی قبل ہمیں ایک اور عجیب با ت کی طر ف متو جہ کر تا ہے : ’’مر نے والے کی زبان پر آخر ی نا م خد ا کا تھااور ما رنے والے کی زبا ن پر بھی خدا کا نام تھا‘‘۔یہ بیسویں صدی کے وسط میں تقسیمِ ہند کی گھڑی کا سچ تھا ۔اور، یہ اُسی بیسویں صدی کے اواخر کے افغا نستا ن کا سچ بھی تو ہے اور بلو چستا ن میں تو دائمی سچ ہے ۔ شیعہ کو ن ، سنی کو ن ؟، قبا ئلی قتل و غا رت میں قا تل کو ن مقتول کو ن؟۔ ایک قتل کر تے ہو ئے ’’یا اللہ مد د ‘‘کہتا ہے اور دوسرا دفا ع میں اللہ کو بلا تا ہے ۔ میر ے آپ کے با پ کا مذہب قاتل و مقتول کے پا س یر غما ل پڑا ہے۔
جب آپ کے سامنے قتل اپنی ننگ دھڑ نگ صورت میں جلو ہ گر ہو ،جب درند گی اپنی پو ری بے نیامی کے ساتھ گلی گلی کی حکمر ان ہو تو استدلا لی سو چ بہت مشکل ہو تی ہے۔مگر ایسے ہی گھپ گھٹا ٹوپ اند ھیر ے میں سچے تولو گ کر جا تے ہیں ایسی با ت ۔ کر شن چند ر ہی کو دیکھے ،وہ ’’ احمد یا ر ‘‘ کی زبا نی یہی با ت کہہ گیا ہے :
’’ہا ئے ہا ئے ۔۔۔۔یہ زما نے کو کیا ہو ا ہے نتھو ؟ ارے ہم تو جا لند ھر میں بھی جو تے بناتے تھے اور لا ہو ر جا کر بھی جو تے بنائیں گے۔ پھر یہ جھگڑا کس با ت پر ہو ا ہے ؟‘‘۔
مگر آج کے احمد یا ر کو تو یہ بھی پو چھنا ہے کہ جنگ عظیم اول کس با ت پر ہو ئی تھی ، جا پا ن پہ ایٹم بم کیو ں گرایا گیا تھا۔ طالبا ن کیو ں بنائے گئے تھے ؟ ۔ یہ تو ایک دائمی سو ال ہے ۔ مگر یہ طبقاتی سو ال بھی ہے ۔ سو ال ، تو سا رے طبقاتی ہو تے ہیں ۔ سو الا ت ہمیشہ مظلو م طبقات کر تے ہیں ۔ حاکم طبقہ سوال نہیں کر تا جو اب دیتا ہے ۔۔۔عملی جو اب ،مختصر جو اب ، سا دہ جو اب ۔ جس میں مال غنیمت میں آئی ہو ئی مسلما ن لڑکی کی عصمت دری کر نے 41ہند وؤں کی لا ئن خو د بخو د بن جا تی ہے اور لڑکی کی مو ت تک دھیر ے دھیرے نمٹتی جا تی ہے ۔ یہ تو مظلو م لڑکی ہے جو اپنی اس عمیق اور گھنا ؤنی بے شرفی پہ فلسفیا نہ طبقاتی سوال چیختی ہے :
’’وے بھراوا ، میں تیر ی بہنا ں ، وے ویر ا، میں تیری بہنا ں‘‘۔
سا ہو کا ر کو جو اباً کچھ نہ کر نا پڑا تھا ۔ اس نے تو لا ئن میں کھڑے 41میں سے محض دو چا ر کو 50،50روپے پکڑا دئیے تھے ،باقی لا ئن تو خو د بخو د بن گئی تھی ۔ ظلم کی لا ئنیں خو د بخو د بن جا تی ہیں ۔دیکھتے ہی دیکھتے ہر گلی میں لا ئن سا زیا ں ہو تی جا تی ہیں ۔۔۔۔۔ ہند و لا ئن ،مسلم لا ئن،شما لی اتحا دوالو اں کی لا ئن، سر بیا والو ں کی لا ئن،۔۔۔۔مختا راں ما ئی پہ لا ئن ، بلو چ کی دولت ہتھیا نے کی لا ئن۔
ایک بالکل الٹ لا ئن کر شن چند ر نے نہیں دیکھی تھی ،یہ تو ہمارے دور کی لا ئن تھی : ایو ب سٹیڈیم کو ئٹہ میں ایک سو روپے چو ری کر نے والے کو کو ڑے ما رے جانے پرتما ش بینو ں کی لا ئن ۔ قند ھار فٹ بال گر اؤنڈ میں ایک عو رت کو سنگسا ر کر نے والو ں کی لا ئن، کا بل کے چو ک پر نجیب کی لٹکتی لا ش کی بے حر متی کر نے والو ں کی لا ئن۔۔۔لا ئن سا ز ،لا ئن سا زیا ں کر تے رہیں گے،ابد تک کر تے رہیں گے، کہ یہ ان کا فلسفہِ حیا ت ہے ،یہ ان کی زند گی کے دوام کی آکسیجن ہے ۔ البتہ اس لا ئن کو تو ڑنے کے خو اہش مند وں کو ،جو تیا ں بنانے والے سا رے نتھو ؤں کی زند گیاں بدلنی ہو ں گی ۔ کو ئی اور شا رٹ کٹ ہے ہی نہیں ۔
جنو ن خو اہ مذ ہبی ہو ، قبائلی ہو ، یا نسلی ۔ انسا نیت کا تحقیر ہو تا ہے ۔ جنو ن نے بٹوارے کے وقت لو گو ں سے ’’بھائی اور ویر ‘‘ چیختی مظلو م لڑکی سے زنا کر وائے ، ننگی عورتو ں کے جلو س نکلو ائے، ما ؤں کی دودھ بھر ی چھا تیا ں کٹو ائیں اور بچوں کی لا شو ں کو نیزوں پر اٹھا کر قہقہے لگو ائے ۔ اس جنو ن کو زند ہ رکھنے والے حاکمو ں کے کئی مر غوب فقر وں میں سے ایک یہ ہے ۔’’مسلمان غر بت ہو سکتا ہے ،بے وقو ف ہو سکتا ہے ، نکما ہو سکتا ہے، مگر وہ بز دل کبھی نہیں ہو سکتا ‘‘۔ آپ اس لفط مسلما ن کو ہٹا کر کو ئی بھی شنا ختی لفظ لگا دیں، جنو ن کا وہی تما شا سجے گا ۔ مثلاً ہم نے دیکھا کہ سر دار بلو چستا ن میں جب چا ہیں ’’ مسلمان ‘‘ کا لفظ استعما ل کر یں ، جب چا ہیں ذکر ی کا ، نما زی کا ، مری کا ،بگٹی کا ، یا جب چا ہیں بلو چ شا مل کر دیں۔بھا ئی بھائی کو ذبح کر نے میں منٹ بھی نہیں لگا ئے گا۔ ہم بلوچ اپنی معلوم تاریخ کے پانچ سو سالوں سے یہی کچھ توکر رہے ہیں۔
جنون پھیل جانے کے اسبا ب میں کر شن چند ر ہمیں ایک اورحقیقت کی طر ف لے جا تا ہے :’’ اب تک مجھے اپنی روشن خیالی اور آزادروی پر بڑاناز تھا لیکن اپنے بچے کے قتل اور بہن کے اغو ا کا قصہ سنتے ہی میر ا خو ن ابل پڑا ، لا وے کی طر ح کھولنے لگا‘‘۔ اور آج تو اس فا شسٹ خو ن ریز ی میں نظر یا تی اور سیا سی حو الے بھی شا مل کر دیے جا تے ہیں ۔ کر شن چند ر کے الفا ط میں’’ ان نفر توں کا خمیا زہ کسے بھگتنا پڑے گا۔یہ دکھ وہی سمجھ سکتا ہے جو ہیر کو را نجھے سے جد ا ہو تے دیکھے ،جو سو ہنی کو مہیو ال کے فراق میں تڑ پتا دیکھے ۔ یہ سیا ستدان کہا ں سمجھ سکتے ہیں اس دکھ کو ‘‘ ۔اور جو تا بنو انے والا ،ایک سیاسی پنڈ ت کا روپ بھی دھا ر لیتا ہے ۔ اورجب اِن ’’وار لارڈز ‘‘ کی لڑ ائیوں میں سیا سی جماعتو ں کے کا رکن شا مل ہو جا تے ہیں تو بقو ل کرشن چند ر یہ پا رٹیا ں ’’رفتہ رفتہ فا شسٹ رنگ اختیا ر کر تی جا تی ہیں ‘‘۔اور اگر غو ر فر ما ئیں تو ہماری سیا سی پا ر ٹیا ں آپ کو اسی فا شزم کی وردی میں ملبو س نظر آئیں گی۔افغا نستان کی پا رٹیا ں ، ایر ان عر اق کی پا رٹیا ں ، پا کستا ن کی پا رٹیا ں، خو د ہند و ستا ن کی پا رٹیا ں ۔ بلا شبہ کر شن چند ر کا ایشیا ، انقلا ب روکنے میں دنیا کا راہنما خطہ ہے اور اس کا روشن فکر دانشو ر نا کا میا ں اور طنز و طعن بر داشت کر تے رہنے کے عالمی ر یکا رڈ میں درج ہو نے کا حقد ار ۔ یہ ہمارے آج کا درد ہے ، یہ ہمارا نصف صدی کا روگ ہے ۔
مگر کیا یہ لڑائیاں دیسی ہیں۔؟ غو ر کر یں تو ایسا نہیں ہے بلکہ کر شن چند ر کی با ت ہی درست ہے ۔ افغا نو ، بلو چو ،شیعو،سنیو۔۔۔۔’’لڑے جا ؤ بہا درو،مر ے جا ؤ بہادرو،ہم اسلحہ تیا ر کر یں گے تم لو گ لڑ و گے ۔ شا با ش بہا درو۔ دیکھنا کہیں ہمارے گو لہ با رود کے کا رخا نو ں کا منا فع کم نہ ہو جا ئے‘‘۔
پا کستا ن اور ہند و ستا ن کے حکمر ان طبقا ت ، پاکستان اور افغانستان کے حاکم طبقات ، پاکستان اور ایران کے حاکم طبقات ہمار ے عوام پر نفرتیں مسلط کر تے رہے اور ہمارے کر شن چندراُن کے خلا ف لکھتے بو لتے رہے ۔ البتہ ابھی حال میں جب دونو ں طر ف کے حاکمو ں با لخصوص پنجا بیو ں کے حاکم طبقے کے دلو ں میں سا ٹھ سا ل بعدپہلی با ر ، انسا نی رو یے بحال ہو نے کے آثا ر پید ا ہو نا شر وع ہو گئے ، توہمارا پو را خطہ بڑی گر مجو شی سے ان کے اس آپسی انسا نی بھائی چا رے کی بحا لی کا منتظر رہا ہے ۔ ہمیں غر ض نہیں تھا کہ حاکم طبقے کو خود عقل آتی ہے ، یا عالمی صورت حال جو تے کے زور سے ان سے ایسا کر واتا ہے لیکن ہم تو بہت خو ش ہوتے ہیں ، پنجا بی کسا ن خو ش ہوتے ہیں ،پنجا ب کا عام آدمی ، وہا ں کا دانشور خو ش ہوتا ہے۔دونو ں اطراف میں دو ستی ہو گی تو دونو ں ملکو ں کے عوام ایک دوسرے کے قر یب آئیں گے،دکھ بٹیں گے،امن و بھا ئی چا رہ بڑھے گا ۔اور ثقا فت و معیشت ترقی کر ے گی ۔ آپ پنجابی پیلی پگڑیا ں پہنے ایک دوسرے سے جتنی با ر گلے ملیں گے ہمارا مست تو کلی اتنی با ر خو بصورت شعر کہے گا، ہمارے کرشن چند ر کی دستا ر کا شملہ اتنا اونچا ہو تا جا ئے گا۔۔۔۔۔۔۔ پر، کتھے؟ یہ سب اِن بالادست لوگوں کی محض’’ ذائقہ بدلیاں‘‘ ہیں۔ کون اقتدار کے اپنے سرچشمے کو ترک کرتا ہے؟۔
کر شن چند ر ایک ایسے عا لمگیر مکتب فکر سے متعلق ہے جہاں مز دوروں،کسانو ں اور عورتو ں کو پسے ہو ئے طبقا ت قر ار دے کر ان کی سر فرازی کے لئے کو ڑے ،جیلیں پھا نسیا ں جھیلی جا تی ہیں ۔صنفی بر ابری والے سما ج کا قیا م اس کے منشو ر کا بلند تر ین نکتہ رہا ہے ۔چنا نچہ ہم دیکھتے ہیں کہ کر شن چند ر نہ صر ف دیہی کسا ن عورت کی اذیت نا ک زند گی کو منظر عام پر لا تا ہے، بلکہ وہ جلیا نو الہ کی شہید عورتو ں شا م کو ر ، زینب اور پا رو کو سا مر اج دشمن تحر یک کا نشا ن قر ار دیتا ہے۔ اس کی نظر میں عو رتیں محض معا شی پید اوار ہی نہیں کر تیں بلکہ انسا ن کی آزادی ،آبا دی ،امن اور سو شلز م کے سیا سی کا رواں کا اہم جز و بھی ہیں ۔علا و ہ از یں وہ ، امتیا زی طو ر پر وہ کا م بھی کر تی ہیں جو صر ف اور صر ف وہی سکتی ہیں۔۔۔تخلیق کا کا م ۔انسا ن کی تخلیق کا کام ۔۔۔ انسا ن جو بقو ل کر شن چند ر ’’نیکی کی روح ہے ، خد ائی کا حا صل ہے ،کا ئنا ت کا غرور ہے‘‘ ۔ اسی مکتبِ فکر سے تو ہم سر کس جا نے والو ں نے ،عورت کی تکر یم جانی ،محنت کی عظمت سیکھی ،انسا ن کی سر فرازی ما نی۔
کرشن چند ر کا لکھا لفظ بے شک رنجیدہ ہے مگر ہے بہت سنجید ہ،امید ا فزا ،حو صلہ بخش ۔اس میں زند گی کی گہما گہمی میں کو د جا نے کا پیغا م مو جو د ہے ،زند گا نی کے تلخ و شیریں کا حصہ بن کر اُسے بہتر بنانے کاپیغام ،زند گی کو زند ہ رہنے کے قا بل بنانے کا عز م موجود ہے۔
کر شن چند ر نا می اس سما جی انسا ن کی خو اہش تو دیکھیے ،اس کی فر یا د تو سنیئے : ’’آئے ، کہیں سے آئے وہ زند گی کی بید ار افق اس ساکن ،منجمد ،بے حس دنیا میں ۔ اس گہری اتھا ہ تیر گی میں آئے کہیں سے وہ نو ر کی کر ن ، وہ صبح کی سر خ لکیر ،محبو ب کے پا ئل کی نا چتی ہوئی آواز۔آئے ،کہیں سے آئے ‘‘۔
کر شن چند ر ایک ایسا مصور ہے جو اپنی تصویر وں میں انسا نی قد روں کی عکا سی کر تا ہے۔ اس کا کینو س مہر وو فا ، سو شل ازم اور انسا نیت سے بنا ہے ۔ پر، انسا نو ں کے اس عظیم ذ سچے اٹھنے والا خو ن کا فوارہ اس کی تصویر وں کو بھی لہو آلو د کر دیتا ہے ۔ پھر بھی خو ن کی دبیز تہہ کی اوٹ سے الفت کے رنگ جھا نکتے ہیں ،لہذا کہیںآپ کو نو جو ان کشمیر ی جو ڑا ملے گا جو ہا تھو ں میں ہا تھ دیے دنیا سے رخصت ہو گیا ، تو کہیں دادی کے آنچل میں چھپا ،پیا سا بچہ ۔ کہیں آپ کو پر کا ش کو اپنی پیٹھ پہ سو ار کر و ا کے جلیا نو الہ با غ کی دیو ار پھلا نگنے میں مد د کر تا صدیق ملے گا تو کہیں نا شپا تیوں کی شا خو ں میں سبز چکنی چکنی پتیاں پھو ٹنے ،اور جہلم کے شفا ف پا نی کے نیلے پتھر وں سے پھسلنے گنگنا نے کے قصے ملیں گے۔اور ’’کبھی کبھی چاند انی راتوں میں سایہ دار درختو ں تلے چلتے چلتے کمر میں ہا تھ ڈال کر سا نس روک کر ایسے پیارے لطیف بو سے تھے جو صر ف چا ند نی سے بنے تھے ۔صر ف جنت سے آئے تھے اور شہد کی سی حلا وت رکھتے تھے ‘‘۔
ذراغو ر کیجئے کر شن چند ر جیسے زیر ک اور با بصیر ت ادیب نے پچا س بر س قبل دنیا کا کیسا عجیب نقشہ بنا تھا۔
’’جب ہند و ستا ن ہو تے ہو ئے بھی کو ئی ہند و ستا ن نہ ہو گا، اور پا کستان ہو تے ہو ئے بھی کو ئی پا کستان نہ ہو گا، کو ئی ایران نہ ہو گا،اور کو ئی افغا نستا ن نہ ہو گا، کو ئی امر یکہ نہ ہو گا اور کو ئی روس نہ ہو گا ،کو ئی چین نہ ہو گا اور کو ئی جا پان نہ ہو گا۔ جب یہ سا ری دھر تی اس دنیا کے سا رے انسانو ں کے لئے ایک چھو ٹا سا گاؤں بن جا ئے گی جس میں تما م انسا ن اپنی اپنی گلیوں میں رہتے ہو ئے ایک دوسرے سے محبت اور الفت ،ہمسائیگی اور آزادی اور بر ابر ی کا بر تا ؤ کر تے ہو ئے امن و چین سے رہیں گے۔وہ دن آج آئے ،کل آئے ،سو سال بعد آئے ،سو ہز ار سا ل بعد آئے،لیکن وہ دن آئے گا ضر ور‘‘۔’’جب نہ کو ئی ہند و ہو گا نہ مسلما ن، بلکہ سب مزدور ہو ں گے اور سب انسا ن ہو ں گے ‘‘۔
اور جہاں بقول کرشن چند ر نو جوان لڑکے لڑکیا ں بے تا ر برقی سے اپنا پیغا م اپنے محبو ب تک پہنچا دیں گے۔ نہ کہ اس ٹکنالوجی کی مد د سے ڈیر ہ بگٹی اور کو ہلو پر سٹیلا ئیٹ گا ئیڈ ڈراکٹ گر ائے جا ئیں گے ۔
کر شن چند ر نے تقسیمِ ہند کے فسا دات میں ہو نے والی انسا نی تقد س کی پا مالی کو رائیگا ں نہیں جا نے دیا ، بلکہ اس نے ابنِ آدم اور بنتِ حوا کے ایک ایک آنسو او رخو ن کی ایک ایک بو ند کو اپنی تحر یر وں میں منتقل کیا ۔ لہٰذااس کی تحر یر وں میں آپ کو لہو کا رنگ غالب ضر ور نظر آئے گا پر آپ کو کبھی ان سے تعصب کی سڑ اند نہیں آئے گی ۔
مگر حیف کہ یہ سنہر ی تحر یر یں سکو لو ں کالجو ں کے نصا ب میں شامل نہیں ۔چلو اُس کے نام میں تو کر شن آتا ہے جو نصا ب سا ز پا کستانیو ں کے گلے سے نہیں اترتا ،مگر یہا ں تو وہ محتر م لو گ بھی نظر اند از ہیں جو عبد ا للہ ہیں ،جو صد ر الدین ہیں ۔جو کمال خان ، رحمت اللہ اسلم اورسبط حسن ہیں ۔
کر شن چند ر ادراک و علم کی ایسی انجمن ہے جو آپ کو میکسم گو رکی ،گل خا ن ،نا ظم حکمت ،اور پبلو نرودا کا دوست بناتا ہے۔ وہ آپ کی دوستیا ں مز ید آگے ہو چی منہ ،ما ؤ زے تنگ اور کا ر ل ما رکس سے کر وادیتا ہے اور پھر تکمیل ذات کی خا طر آپ کو صوفی عنا یت کے گا ؤ ں ،حید ر بخش جتو ئی کی ریلی ،پا ویل کی فیکٹر ی اور بز نجو کے عام انسا ن کے کا روان کے بیچ ٹپخ دیتا ہے۔ کر شن چند ر جیسے لو گ اپنے قا ری کومہرِ لا زوال کا روگ لگا دیتے ہیں ۔ مہرجو انسا نیت ہے ،انقلا ب ہے ،سوشلزم ہے ۔ انہی روگیو ں جو گیو ں کو سلا م کہنے کے لئے تو ،ہر دور میں ’کسی ’’شا ہ جو رسالو ‘‘ کا نز ول ہو تا رہا ہے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے