رات آکر دوپہر کو کھاگئی ہے
معجزے کو موت کیسے آگئی ہے
قیدِ وقت وشش جہاتِ زشت خومیں
زندگی، جیتے ہوئے گھبراگئی ہے
لمحہ لمحہ چبھ رہا تھا خار جیسا
قطرہ قطرہ، مرگ ، جاں پر چھا گئی ہے
جن سے کرتے تھے دکھوں کی گفتگو ہم
ان کے دکھ کی دھند ہر سو چھاگئی ہے
جن کے سائے میں ٹھہرنا تھا رتوں کو
ان درختوں کو تمازت کھا گئی ہے
دی خبر اُس غم کی جو تھا حد سے باہر
بے کلی اس شرم سے مر جھاگئی ہے

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے