افلاطون کے نزدیک تعلیم کا مقصد سچائی کو جاننا ہوتا ہے ۔تعلیم کے زریعے طبقوں کومعلوم کیا جاتا ہے۔تعلیم کا مقصد فرد کی شخصیت کو ترقی دینا اس کو زہنی اور جسمانی طو ر پر ترقی دینا ہوتا ہے ۔پیدائش سے لے کر موت تک تعلیم انسان کا ساتھ دے گی ۔ اس کے خیال میں مرد اور عورتیں برابرہیں۔معاشرے میں چند عورتیں مردوں سے کمزور تر ہیں۔لیکن وہ جو جسمانی طور تندرست اور مردوں کے برابر ہیں انہیں مردوں جیسا تربیت حاصل کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔تاکہ وہ بھی Art of warکے بارے میں جان سکیں تاکہ وہ بھی معاشرے میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔ افلاطون معاشرے میں سب کیلئے تعلیم پر اسلئے زور دیتا ہے کہ ہر کوئی معاشرہ کی ترقی میں اپنی ذمہ داریوں کو جان لے۔کہ میری کیا زمہ داریاں ہیں؟ اور وہ معاشرے کی ترقی میں اپنا کردار اداکرے۔
افلاطون کے نزدیک ریاست میں پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی اجازت نہیں ہونی چاہیے ۔یہ صرف اور صرف ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کو تعلیم دے۔وہ اس کے لئے جسمانی طور پر صحت مند کیلئے ملیٹری ٹریننگ اور ذہنی طور پر صحت مند کیلئے میوزک پر زور دیتا ہے۔
افلاطون کے نزدیک تعلیم کے دوحصے ہوتے ہیں۔ ایک میوزک جو زہن کی ٹریننگ اور زہن کی نشوونماء کیلئے ہوتا ہے ۔دوسرا جمناسٹک جسے جسمانی ٹریننگ کہتے ہیں جو جسم کو طاقتور بناتا ہے۔کیونکہ تعلیم کیلئے صحت مند جسم اور صحت مند زہن بہت ضروری ہوتا ہے۔کیونکہ جسمانی طور بیمار اور زہنی طور پریشان افراد اچھی طرح نہیں سوچ سکتے اسلئے وہ اچھی تعلیم حاصل نہیں کرسکتے۔
ریاست کو چلانے کیلئے لیڈر،کام کرنے کیلئے چھوٹے لوگ(مزدور طبقہ) ،دفاع کیلئے فوجی اور حکمرانی کیلئے شعور یافتہ طبقہ پیدا کرنے کیلئے افلاطون نے ایسے تعلیم کے نفاز کیلئے زور دیا ہے۔ جیسے تعلیم کے مراحل کہتے ہیں۔جو درج زیل ہیں۔
1۔ابتدائی تعلیم:افلاطون کے مطابق بچوں کی تعلیم کم از کم 6سال کی عمر سے شروع ہونی چاہیے۔اس مرحلے سے پہلے بچوں کو اپنے والدین اور بزرگوں سے تعلیم حاصل کرنی چاہیے۔ابتدائی تعلیم میں ریاضی، شاعری، موسیقی اور ادب پڑھایا جائے۔۔6سال کی عمر کے بعدلڑکوں اور لڑکیوں کو الگ الگ کریں لڑکوں کو لڑکوں کے ساتھ اور لڑکیوں کو لڑکیوں کے ساتھ رکھیں۔دونوں کو جنس کے مقصد کے بارے میں پڑھایا جائے۔یہ مدت 6سے 17سال تک چلے گا۔وہ جو پہلی دفعہ کے امتحان(6سے 17 سال) میں فیل ہوتے ہیں وہ نوکریاں کرتے ہیں انہیں دوبارہ امتحان نہیں لینا چاہیے۔ریاست میں یہ Appetit خواہشات والے لوگ ہوتے ہیں۔یعنی مزدور طبقہ بن جاتا ہے جو عقل والا کام نہیں کرتے بس جسمانی طور پر کا م کرتے ہیں ۔
2۔ملٹری ٹریننگ:ابتدائی تعلیم کے بعد انہیں دو سال کیلئے جسمانی تعلیم دینی چاہیے۔ان میں بہترین کو اعلیٰ تعلیم کیلئے منتخب کیا جائے ۔جولوگ دوسرے مرحلے میں فیل ہوتے ہیں یہ spiritیعنی جزبات والے اور جنگجو لوگ ہوتے ہیں۔ یہ ریاست میں دفاع کا کام کرتے ہیں۔ یہ ملٹری آفیسر یا فوجی ریاست کے محافظ بن جاتے ہیں۔ اس میں جزبہ ہے لیکن عقل و شعور کی کمی ہوتی ہے۔
3۔اعلیٰ تعلیم: ۔اعلیٰ تعلیم 20سے 35 سال کی عمر تک دینی چاہیے۔ اس مرحلے میں ان کو ریاضی، حساب کتاب، ادب اور فلسفہکے بارے میں10سال تک تربیت دیں۔ اس امتحان میں پاس ہونے والے study of dialect میں داخل ہوں گے۔ وہ مزید پانچ سال تک dialectکا مطالعہ کریں گے۔ اس کے بعد کے مرحلے میں وہ فلاسفر اور حکمران بن جاتے ہیں۔۔یہ استدلال یعنی عقل و شعور والے لوگ ہوتے ہیں یہ لوگ خواہشات اور جزبات کو عقل و شعور کے تابع رکھتے ہیں۔ یہی لوگ حکمرانی کرتے ہیں۔ جیسے حکمران طبقہ بھی کہتے ہیں۔
افلاطون کی تعلیم میں صرف ریاست کی تعلیم چلتی ہے نجی تعلیم اداروں کی اجازت نہیں۔ اس کے مطابق ریاست میں اظہار رائے کی آزادی نہیں ہونی چاہیے۔

تنقیدی جائزہ:
افلاطون کی تعلیم کا مقصد حکمران طبقہ کیلئے ہوتا ہے۔ معاشرے کی اکثریت والی آبادی(چھوٹے طبقے)کو نظرانداز کیا گیا۔
افلاطون کی تعلیم میں ریاست میں اظہار رائے کی آزادی نہیں ہوتی جو آمرانہ نظام جیسا تعلیم ہوگا۔جو ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنے گی۔کیونکہ جو پابندی لگاتا ہے وہ بھی توغلط ہوسکتا ہے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے