ہر سا ل کی طر ح اِس سا ل بھی بلو چستا ن کے اولین سیا سی و قو می رہنما میر یو سف عز یز مگسی کی بر سی انتہا ئی عقید ت و احترا م کے ساتھ منا ئی گئی۔ میر یو سف عز یز مگسی کی اَسی (80) ویں برسی کی منا سبت سے ادارہ نو ائے بولا ن و نو کیں دَو ر پبلیکیشنز کی جا نب سے بلو چی اکیڈ می کے ہا ل میں ایک پرُ و قا ر سیمینا ر کا انعقا د ہُوا ۔ جس کی صدا رت بلو چی و بر ا ہو ی کے بز ر گ دانشو ر قا ضی عبد الحمید شیر ز اؔ د نے کی اور مہما ن خاص ڈاکٹر کہو ر خان تھے ۔ سیا سی ،سما جی اور ادبی خدمات پر تفصیلی لیکچر پر محیط تھا۔ سٹیج سیکریٹری کے فرا ئض آ غا قا سم شا ہ نے انجا م دیئے ۔
ڈاکٹر کہو ر خان نے اپنے خطا ب میں میر یو سف عز یز مگسی کو بلو چستا ن میں جد ید نیشنلز م کا با نی قر ار دیا ۔ انہو ں نے کہا کہ میر یو سف عز یز مگسی ایک ایسے دَو ر میں منظر عا م پر آ ئے جب ایشیا ء افر یقہ ، لا طینی امر یکہ میں معا شی و سیا سی پسما ند گی کے خلا ف و سامر اج دشمن جا گیردار دشمن قو می تحر یکیں اپنی اُٹھا ن پر تھیں ۔ جبکہ یو ر پ اپنی سما جی ما ہیت کے لحا ظ سے اٹھا ر ویں صدی کی پسما ند گی سے نکِل چُکا تھا۔ عظیم انقلا ب رُ و س جس کے اثر ات نے دیگر خطو ں کی طر ح ہمارے ہاں تر کی ، افغا نستا ن ، مصر ، ہند و ستا ن کی قو می تحر یکو ں کو اپنی لپیٹ میں لے چُکا تھا۔ جو کسی بھی با شعو ر فر د کو متا ثر کر سکتے تھے ۔ اِسی طر ح ہمارے خطے میں بھی اُس وقت کے با شعو ر نو جو ان ان تحر یکا ت سے متا ثر ہو ئے بغیر نہیں رہ سکے۔
یہ اُس وقت کی با ت ہے جب انگر یز و ں کی امپیر یل ازم کے خلا ف ہمارے خطے میں ۔ روایتی تحر یکیں منظم نہیں ہو پا ر ہی تھیں ۔ انہی روایتی تحر یکوں کی نا کا میو ں پر سو چ نے بلو چستا ن میں بلو چ نوجوا ن پو د کو سیا سی و جمہو ری بُنیا دوں پر ایک نئی با شعو ر تحر یک کی داغ بیل ڈالنے کی جانب راغب کیا۔
1920 میں پہلی با ر میر عبد العز یز کُر د کی قیا دت میں انجمن نو اجو نا ن بلو چ کے نا م سے سیا سی و جمہوری تحر یک کی داغ بیل ڈالی گئی ۔ جس کا بنیا دی مقصد ریا ست قلا ت میں آئینی حکو مت کا قیا م ،متحد ہ بلو چستا ن کا حُصول ، عوامی نما ئند وں پر مشتمل اسمبلی تھا۔ وُ ہ جد ید نیشنلز ازم کے فکر سے لیس ، اُسے شعو ری طو ر پر آگے بڑھا نے کے عز م سے پُر تھے ۔ بیسو یں صد ی کی قو می آزادی کی تحر یکیں بنیا دی طو ر پر سامر اج دشمن جد و جہد تھی ۔ بیر ونی استعما ر، نو آبا د یو ں کی لو ٹ گھسو ٹ،کے خلا ف یہ تحر یکیں اپنے عُر وج پر تھیں ۔
اِ سی دوَر میں مو لا نا عبید اللہ سند ھی ہز اروں رفقا کو سا تھ لے کر افغا نستا ن میں خیمہ زن ہو ئے ۔ مصر ی خان کھیتران نے 1920 میں با کو کا نفر نس میں بلو چستا ن کی نمائند گی کی ۔
مو لا نا عبید اللہ سند ھی نے سامر اج دشمن جد و جہد کو تقو یت دینے اور انقلا ب رو س کے اشر ا یت کو پھیلا نے کے لیے کچھ سکو لز بنائے ۔ آ رگنا ئز یشنر بنیں ۔ سکو ل آ ف پر و پیگنڈ ہ نے انڈ ین اور فا رسی زبانو ں میں لٹر یچر چھا پے۔ اُس وقت کے بلو چ اور برا ہو ی زبا نو ں کے مشہو ر عالم دین مو لا نا عمر دین پو ری جو کہ مکتبہ درخان کے سر خیلو ں میں سے تھے، مو لا نا عبید اللہ سند ھی کے سا تھ افغانستا ن ہجر ت کر چکے تھے ۔ جن کا بنیا دی مقصد یہ تھا کہ اپنے خطے کی تحر یکوں کو انقلا ب رو س کے سامر اج دشمن ، فیوڈل دشمن اثر ا ت سے منو ر کیا جا سکے۔ اور لو گو ں کو علمی بنیا دوں پر سمجھا نے کی کو شش کیا جا ئے ۔ بلو چ نوجو انو ں کا وہ کھیپ جو مو لا نا عبید اللہ سند ھی کی تحر یک سے متا ثر تھا وُہ ایسٹرن مکتبہ فکر سے متا ثر تھے ۔ جبکہ بلو چ نو جو انو ں کا دو سر ا گروہ جس کی قیا دت میر عبد العز یز کُر د کر رہے تھے ۔ ویسٹر ں مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے تھے ۔ یہ انگلش و ر نیکل سکو ل سے نکلے تھے ۔ حالا ت و واقعا ت کا ادراک و گہر ی نظر نے انہیں شعو ری طو ر پر متحر ک سیا سی و جمہو ری تنظیم بنا نے پر راغب کیا ۔ یہ تنظیم جو 1920 میں بنا ئی گئی تھی۔ خفیہ طو ر پر اپنی سر گر میاں بلو چستان میں جا ری رکھنے ہو ئے تھے ۔ 1929 میں میر یو سف عز یز مگسی کا منظر عام پر آ نا لا ہو ر کے ایک جر ید ے مساوات میں ’’فر یا د بلو چستا ن ‘‘ کے عنو ا ن سے ایک مضمو ن کی اشا عت نے اِس تحر یک کو تقو یت دی ۔ یو سف عز یز کی گر فتا ری ، بلو چستا ن میں پہلے سیقا ئم تنظیم میں شمو لیت نے بلو چ نو جو انوں کی اِ س تحر یک کو تقو یت دی ۔ 1930 میں یو سف عز یز کی رہا ئی کے بعد یہ تحر یک خفیہ تنظیم کا ری تر ک کر کے کھلم کُھلا منظر عام پر آیا ۔ میر یو سف عز یز اِس تحر یک کے رو حِ روان بنے ۔ تنظیم کے صد ر چنے گئے اور میر عبد العز یز کُر د نے جنر ل سیکر یٹر ی کے فر ائض سنبھا لے ۔میر یو سف عز یز کی قیا دت نے اِ س تحر یک میں نئی جا ن ڈال دی ۔ ہما رے رہنما میر یو سف عز یز مگسی اور میر عبد العز یز کُر د یہ جا ن چکے تھے کہ قو می آزادی کی تحر یکیں سا مر اج دشمن خصلت رکھتے ہیں ۔ اس کے اتحا دی مز دو ر ، کسان ، مفلو ک الحا ل عو ام درمیانہ طبقہ ہے۔ جبکہ اس کے مخالف سامر اج ہے۔ جس کے اتحا دی فیو ڈل اور قبا ئل سردار ہیں ۔ جو کہ سامر اجی مفا دات کی تر جمانی کر تے ہیں انہوں نے ضر وری سمجھا کہ ہمیں اپنے خطے میں سا مراج دشمن تحر یک کی داغ بیل ڈالنا چائیے ۔ ہمیں استعما ر ، نو آبا دیت اور اُن کے گما شتہ ٹرائبل چیف کے خلاف جد وجہد کو عوام سے جو ڑنا ہے ۔ عوام کو ایک تنظیم میں پرو نا ہے۔
میر یو سُف عز یز مگسی نے اپنی خطو ط پر اپنے سما ج کو جمہو ری جد و جہد کے ذریعے متحر ک کر نے کے لئے آگے بڑ ھنے ، عوام کے حقو ق بلو چ سما ج میں زند گی گز ارنے والے مختلف طبقا ت کے حقو ق ،خو اتین کے حقو ق اور لو گوں کی ضر وریا ت کو مدِ نظر رکھ کر جد و جہد کا آغا ز کیا ۔ آئینی حکو مت کا مطالبہ کیا ۔کا ر خانو ں کے قیا م کا مطا لبہ ،کسانو ں کے مطا لبا ت غر ض یہ کہ یو سف نے بلو چ سما ج کے تمام طبقا ت کے مسا ئل کا جا ئز ہ لے کر اُسے اپنے پر و گرام میں شامل کیا۔ اپنی سیا سی و معا شی حقو ق کی جد و جہد سے جو ڑا ۔انگر یز وں کے خلا ف ، انگر یز کے نامز د کر دہ وز یر اعظم ریا ست قلا ت سر شمس شاہ کی ریا ستی عوام پر ظلم و چیر کے خلا ف ذمہ دار آئینی حکو مت ، اصلا حا ت ، عوام کے ووٹو ں سے منتخب نا مز د اسمبلی ، کے مطا لبا ت نے زور پکڑ لی ۔
تحر یک کے منظر عام پر آ نے اور میر یو سف عز یز کی قیا دت سے سر شمش شاہ سیخ پا ہو گئے ۔ انہوں نے مگسی عوام پر ظلم و جبر اور ز یادتیوں کے پہا ڑ توڑے ،جس کی پا داش میں ہز اروں کی تعدا د میں مگسی ہجر ت پر مجبو ر ہو ئے ۔
مگسی ہجر ت کے پس منظر میں لکھی جا نے والی کتابچہ شمس گردی نے سر شمس شا ہ کے کالے کر تُو توں سے پر دہ ہٹا یا ۔ اِسی تحر یک کے اثر ات نے بعض بلو چ قبا ئل میں اپنے سر داروں کے خلاف ریفا رم کی تحر یک اُٹھیں ۔ یہ پہلی سیا سی فتح تھی ۔ ریا ست کے خان نے انجمن کے ساتھ مفا ہمت کی راہ اپنالی ۔ سر شمس کو وزیر اعظم سے ہٹا نا پڑا ۔
میر یو سف عز یز کی قیا دت میں دسمبر 1932 بلو چ کا نفر نس بمقا م جیکب آبا د نے تحر یک کو ایک نئے مو ڑ اور کا میابی سے ہمکنا ر کیا ۔ اِ س کا نفر نس میں بلو چستان پنجا ب سند ھ ،فر نٹیر ، انڈ یا ، ایر ان اور خلیج سے بلوچ علما ء کے وفود نے شر کت کی ۔
جمہو ری حکو مت کا قیا م ، متحد ہ بلو چستا ن ، عوام کی رائے سے نا مز داسمبلی ، فر نٹیر کر ائم ، ریگولیشن کے خاتمہ ،ایجو کیشن ، کسانو ں ، خواتین ،ملا زمین کے حقو ق ، صنعتوں اور مِلو ں کے قیا م ،سند ھ، پنجا ب اور دیگر صو بو ں کے خالصتا بلو چ آ بادی پر مشتمل علا قو ں کو بلو چستا ن میں شامل کر نے ، اور دیگر سیا سی معاشی و تعلیمی مطالبا ت سامنے آئے، ا و ر جن کے حصو ل کے لئے سر توڑ جد و جہد کی گئی ۔ ڈاکٹر کہو ر خان نے مگسی اور اُس کے رفقا ء کی جد و جہد اور آج کی سیا سی جد و جہد کا مو از نہ کر تے ہو ئے کہا ۔ کہ آج سیا سی معا شی اور تعلیمی پسما ند گی انٹلیکچول کر پشن کی وجہ سے ہے ۔ انٹلیکچو ل کر پشن ہی بنیا دی وجہ ہے ہماری معا شی پسماند گی اور سیا سی پسپا ئی کا ۔ آج یہ نفر ت ،دوری ، تنگ نظر ی ، کر پشن دانشو روں کی وجہ سے ہے۔ آج ہم تر قی، زند گی کی بنیا دی سہو لیتں عوام کو دینے سے ہچکچا رہے ہیں ۔ ہم طا قت کے روایتی مر اکز کے پا ؤ ں تلے ہیں ۔ ایک قبیلے سے تعلق رکھنے والا سیا سی رہنما دوسرے قبیلے کے علا قے میں نہیں جا سکتا ۔ اب بھی ہم انہی مسا ئل کے شکا رہیں جن کا ادراک میر یو سف عز یز مگسی نے کیا تھا ۔ مسا ئل کے سدِ با ت کا حل بھی وہی ہے جن کی نشا ند ہی میر یو سف عز یز مگسی نے کی تھی ، میر یو سف عز یز کی فکر ی جد و جہد آج بھی ’’Valid‘‘ ہے ۔
آج ہمارے پاس معلو ما تی ذرائع کی کمی نہیں ، انٹر نیٹ ہے جس نے دُنیا کو ایک دیہا ت کے معلو ما ت کی ما نند ہماری نظر وں میں عیا ں کر دیا ہے ۔ لیکن ہم اِ ن معلو ما ت کو علم میں نہیں بد لنے۔ اور علم کو حکمت میں بد لنے کی صلا حیت نہیں رکھتے ، جب تک ہم معلو ما ت کو علمِ میں اور علم کو حکمت میں نہیں بد لیں گے آگے نہیں بڑسکیں گے ۔ اب جو صو ر تحا ل ہے ہمارے مسا ئل کی ۔ اِ ن مسا ئل کے سدِ با ب کے پر و گر ام پر کس نے عمل کی ۔یہ پا رٹیا ں تبد یلی کے لیے نہیں بلکہ حکو مت کر نے کے لئے بنی ہیں ۔ ہمیں حکو مت کے لئے نہیں سما جی تبد یلی ’’Change‘‘ کی ضر ورت ہے ۔
آج ہم جس تاریخی دور سے گُز ر رہے ہیں ، اِ س دور کی ضرو ریا ت ، لو ا زما ت کو سمجھنا چاہیے ۔ ہر دور کی اپنی ضر ور یا ت اور تقا ضے ہو تے ہیں ۔ ایک دورَ ایسا بھی تھا جو مسلز پا و ر کا تھا ۔ سکند ر اعظم ، چنگیز خان کا دور ۔۔۔دوسرا دور ایسا آیا کہ طاقت کی جگہ دولت نے لے لی ۔ جس کے پا س دولت تھی وہ حاکم بنے۔ پھر سائنس اور ٹیکنا لو جی نے ایک نئے دور کا آغاز کیا ۔ ٹیکنا لو جی نے قد رتی وسا ئل کی دریا فت کر نے کے لئے دولت کا سہا را لیا ۔ جیسے زمین کے اند ر پا نی مو جو د ہے ۔ اِ سے با ہر لا نے کے لئے کنو اں کھو دنا پڑ تا ہے۔ کنو یں سے پانی نکالنے کے لیے مشینو ں کی ضر ورت ہو تی ہے ۔ مشین بجلی یا آئل سے چلتی ہیں ۔ مشین ، بجلی مشینو ں تک پہنچا نے کے لئے دولت کی ضر ورت ہو تی ہے ۔ اِ س طر ح سا ئنس دولت کے سہا رے ٹیکنا لو جی کو بر و ئے کا ر لا تا ہے ۔ کو ئلے کو در یا فت کر نا اور نکالنا دولت کی دوسر ی قسم ہے جو ’’Resorce‘‘ کے زُمر ے میں آتی ہے ۔ جو حکمت کا نا م ہے جسے خو د تخلیق کر نا پڑتا ہے ۔ آج کے دور میں دنیا میں سب سے زیا دہ دولت ریسور س پر خر چ ہو رہا ہے۔ لیکن ہم ایک ایسے معاشر ے میں جی رہے ہیں جہاں دولت ریسو رس پر نہیں بنگلو ں پر نئے ما ڈل کی VIP گا ڑیو ں پر خر چ کیا جا تا ہے ۔ انسا ن کے بھوک ، پیا س سے انہیں کچھ غر ض نہیں ۔ ہمارے پا س تو ادارے بھی ابھی تک نہیں بنے ہیں جو نو جو انوں میں شعو ر پید ا کر یں ۔ بد قسمتی سے ہمارے تعلیمی ادارے ، یو نیو ر سٹیز نو جو انوں میں جو رو یئے پید ا کر رہے ہیں وُہ تخلیق اور حکمت سے کو سو ں دور ہیں۔ پا نی اُلٹا بہہ رہا ہے ۔ اِس طر ح کا رو یہ یو سفی فکر و سو چ کے خلا ف ہے ۔ انہیں روکنا ہے ۔درست سمت پر لا نا ہے ۔ترقی کرنا ہے ۔ ان کی تخلیقی صلا حیتوں کو اجا گر کر نا ہے ۔ ہمیں انحصا ر پسند ی سے نکلنا ہے ۔ جسے کہ ہمارے بلو چ علا قو ں میں ایک وبا ء کی صو رت میں پھیلی ہو ئی ہے ۔ جہاں ایک پوُ را خاند ان ایک فر د پر انحصا ر کر تا ہے ۔ یہ منفی روئیہ ہے ۔ ہم معا شی طو ر پر پسماند ہ ہیں ۔ غیر مستحکم ہیں جسما نی و ذہنی طو ر پر سسُت و الو جو د ہیں ۔ ہمیں اپنے ان رو یوں کو بد لنا ہے اپنے جو انوں کو ٹکنیکل تعلیم کی طر ف راغب کر نا ہے ۔ اِ س طر ح ہم نئے دو ر کے لو از ما ت ضروریا ت کو پوُ را کر سکتے ہیں ۔ معاشی پسما ند گی سے نکل سکتے ہیں اور ایک خو شحال معا شر ے کی تشکیل کر سکتے ہیں ۔یہی ہے میر یو سف عز یز مگسی کی سو چ جو آج ہمارے معا شر ے کی ضرور ت ہے۔ ہماری پسما ند گی کا حل ہے ۔ جسے اپنا نا ہماری ضر ورت ہے ۔ یہی پیغام یو سفی ہے۔ ڈاکٹر کہو ر خان نے تقر یبا ! دو گھنٹے مختلف سو الا ت کے جو ابا ت بھی دیتے رہے۔
سمینا ر کے مہتمم ڈاکٹر سیلم کُرد نے مختصر خطا ب کیا ۔ آخر میں صد ر مجلس قا ضی عبد المجید شیر زاد نے میر یو سف عز یز کی جد و جہد پر روشنی ڈالی ۔ اور 31مئی 1935کے زلز ے میں وفا ت پانے والو ں کے ایصال ثو اب کے لئے دُعا کی ۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے