کوئٹہ
شبیر رخشانی
یوں تو آپ کی ملاقات روزانہ کسی نہ کس سے ہوتی رہتی ہے کچھ ان میں سے نئے تو کچھ پرانے۔ بات جب علم و ادب پہ آجاتی ہے جب آپکی ملاقات ادبی مخلوق سے ہوجائے اور ادبی محفل جم جائے تو سونے پہ سہاگہ۔ اس سے نہ صرف آپکاادب کے شعبے کے ساتھ ذوق مزید بڑھ جاتا ہے بلکہ اسکے ساتھ ساتھ اپنی علمی و ادبی استعداد بڑھانے کا نایاب و نادر موقع ہاتھ آجاتا ہے جسکا مجھ جیسے نووارد لوگوں کو بے چینی سے انتظار رہتا ہے۔
چند دن پہلے کی بات ہے کہ کالم نگار دوست عابد میر کا پیغام بذریعہ موبائل موصول ہوا کہ ادبی پروگرام ’’پوہ وزانت‘‘ اتوار کے دن منعقد ہوگی۔ سنگت اکیڈمی کی جانب سے پہلا دعوت نامہ وصول کرکے بے حد خوشی ہوئی کہ اس پروگرام میں ادبی شخصیات کی صحبت میں چند لمحے گزارنے کا نایاب موقع ہاتھ آجائے گا۔ وقت مقررہ پر میں اپنے صحافی دوست محمد اکبر نوتیزئی(جو کہ تحقیقی صحافت سے وابستہ ہے) کے ساتھ مری لیب کے سامنے پہنچ گئے۔ مری لیب کی خاصیت ہی کچھ اس طرح سے ہے کہ جناب شاہ محمد مری صاحب کی موجودگی اسکے مریدوں کو اپنے طرف کھینچ لاتی ہے۔ کمرہ چھوٹا ہونے کے باوجود اس میں بہت سارے افرادکے بیٹھنے اور گفتگو کرنے کے لئے گنجائش پیدائش کر سکتی ہے۔ ایک دن ان سے دوران ملاقات آگاہی مل گئی کہ سنگت اکیڈمی کی جانب سے پچاس بین الاقوامی کتابوں کا بلوچی میں ترجمے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔ موضوع کا ذکر چھیڑتے ہی میری طرف سے سوال آیا چونکہ اسکی کتابوں کا مجموعہ اردو زبان میں ہے اور انگریزی کے مطبوعات کا ترجمہ بھی انکی جانب سے اردو میں کیا جا چکا ہے اچانک بلوچی میں ترجمے کا خیال کیسے آیا تو انکاکہنا تھا کہ اردو کی خدمت تو ہندوستان سے لیکر کراچی تک کرنے والے بہت ہیں ۔ اپنی مادری زبان بلوچی کا بھی حق بنتا ہے اور یہ خیال کافی عرصے سے انکے زہن پر چھایا ہوا تھا کہ بلوچی زبان کی خدمت کے لئے بین الاقوامی کتابوں کے ترجمے اپنے مادری زبان میں ترجمہ کرنے کا سلسلہ شروع کیا جائے۔ گو کہ ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب کی خدمات بلوچستانی ادبی شعبے میں حساب کی دسترس میں نہیں آتے لیکن پھر بھی پوچھنے کی جسارت کی کہ اب تک کتنی کتابیں تحریر اور ترجمہ کر چکے ہیں۔ جواب صرف مسکراہٹ میں دینے ہوئے انہوں نے میرے سوال کو ٹال دیا۔ سنگت اکیڈمی کی جانب سے ماہنامہ سنگت کا اجراء بھی کسی بڑے کارنامے سے کم نہیں۔
خیر واپس موضوع پر آتے ہیں پروگرام کی شروعات جناب عابد میر کی آواز سے شروع ہوا۔ جہاں ادب کے ساتھ منسلک افراد کی بڑی تعداد اس پروگرام کا حصہ تھے۔ ڈاکٹر شاہ محمد مری، جییند جمالدینی، پروفیسر وحید زہیر، جاوید اختر اور دیگر ادبی شخصیات جنکے نام یاد نہیں آرہے نے شرکت کی۔ مجھ سمیت اور بھی نوجوان بھی اس پروگرام میں شریک تھے جو پہلی مرتبہ سنگت اکیڈمی کے کسی پروگرام کا حصہ تھے۔ البتہ ایک نوجوان جو باقاعدہ سنگت اکیڈمی کا حصہ تھے کا تعارف میرے دوست اکبر نوتیزئی نے کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہیں آزات جمالدینی (جونیئر)۔ یقیناًیہ نام تو بلوچستانی اہل ادب کے لئے نیا تو نہیں۔ البتہ اس نام کے ساتھ ایک نوجوان کی وابستگی وہ بھی ادب کے ساتھ میرے لئے خوشی کا باعث بن گئی۔
پروگرام کے لئے دو مضامین پروفیسر جاوید اقبال نے ترتیب دیئے تھے۔ مرحوم نادر قمبرانڑیں اور مرحوم خدائیداد کی یاد میں ۔ بلوچستان کے ادبی شعبے میں دو جانے پہچانے نام ۔ مرحوم خدائیداد کی یاد میں کھے گئے مضمون کو پڑھنے کے لئے شرکاء میں سے ایک کی خدمت حاصل کی گئی جبکہ دوسرا مضمون انہوں نے خود پرھ کر شرکاء کو سنایا۔
پروگرام کا دوسرا حصہ سنگت اکیڈمی کے آئندہ انتخابات، مرکزی سطح پر منعقد کی جانے والی کانفرنس، آئین میں مزید اصلاحات لانے پر تھا۔ پروگرام میں چند سفارشات بھی پیش کئے گئے جن پر شرکاء نے اپنی رائے سے نوازا۔
دو گھنٹے کا پروگرام اپنے اختتام کو پہنچ چکا تھا۔ لیکن بزرگانِ ادب کے ساتھ گزرے یہ دوگھنٹے ہم نوارد نوجوانوں کے لئے ایک امید کی فضاء قائم کر گئے۔ پروگرام میں آزات جمالدینی جونیئر کے علاوہ باقی شرکاء مجھے سینیئر ہی نظر آئے۔ یقیناًاس ادارے اور ادب کے شعبے کو توانا بنانے کے لئے آنے والے وقتوں میں کہیں نہ کہیں یہ ذمہ داری نوجوانوں کی کندھوں پر ڈالنے کی ضرورت ضرور پیش آئے گی اور اسکے لئے بہتر حکمت عملی کے طور پر نوجوانوں کو اپنے ساتھ چلنے کے لئے آمادہ کرنے کے لئے متحرک نوجوانوں کو اپنے ساتھ لیکر چلنے کی ضرورت ہوگی۔اس پروگرام میں ایک مثبت پیش رفت یہ بھی ہوا کہ سنگت اکیڈمی بلوچستان کی سطح پر مختلف متحرک اکیڈمیوں کو ساتھ لیکر چلے گی جس پر پروگرام میں ایک تفصیلی بحث بھی سامنے آیا۔
ادبی پروگرام چاہے چھوٹا ہو یا بڑا ایسے پروگراموں میں ذوقِ مطالعہ رکھنے والے افراد کتابوں کی عدم دستیابی کو نامکمل پروگرام سمجھتے ہیں۔ جو کہ اس پروگرام میں سنگت اکیڈمی کی کتابوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے ذہنوں میں سوال بن کر ابھر آیا۔ یقیناًسنگت اکیڈمی کی کوشش اور کاوشوں سے انکار نہیں کیا جا سکتا جہاں شاہ محمد مری صاحب اور اسکی ٹیم ادب کے شعبے کے لئے اپنی گرانقدر خدمات انجام دینے میں مصروف عمل ہیں۔ البتہ یہ سوال میں نے شاہ محمد مری کے سامنے بھی رکھا تھا کہ سنگت اکیڈمی کا باقاعدہ ایک کمرہ جو کہ دفتر اور کتابوں کے لئے مختص ہو جہاں زوق مطالعہ رکھنے والوں کو مطالعہ کے ساتھ ساتھ کتابوں کی خریداری کا بھی موقع مل جاتا اور ساتھ ساتھ بحث و مباحثے کا ایک فضاء بن جاتا۔اس پر انکا کہنا تھا کہ انہوں نے ایسی سرگرمی کا عمل سات ماہ تک انجام دیا تھا لیکن اسکا کوئی مثبت نتیجہ سامنے نہیں تھا۔ جسکی بناء پر انہیں وہ سلسہ منقطع کرنا پڑا تھا۔ البتہ ایسے پروگراموں پر غور کیا جا سکتا ہے۔ اور مستقبل میں ایک لائحہ عمل بنایا جا سکتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کوئٹہ
عابد میر
سنگت پوہ وزانت کی ماہانہ نشست کا اہتمام 13نومبر کی شام پروفیشنل اکیڈمی میں ہوا۔ نشست میں جیئند خان جمالدینی ، جاوید اختر، سرور خان، کامریڈ عبدالنبی بلوچ، ڈاکٹر منیر رئیسانڑیں، وحید زہیر، شاہ محمد مری، اقبال ظہیر ، شیر دل غیب، کامریڈ کلیم ،خیر جان بلوچ ، عابدہ رحمان اور عابد میر شامل ہوئے۔ نشست کے پہلے حصے میں جاوید اختر کا ڈاکٹر خدائیداد پر مضمون خیر جان نے پڑھ کر سنایا، دوسرا مضمون نادر قمبرانی سے متعلق جاوید اختر نے خود پڑھا۔ دونوں مضامین میں ہر دو شخصیات کے کردار اور نظریات پر روشنی ڈالی گئی۔ نیز مصنف نے ان سے اپنی قربت اور نظریاتی وابستگی کا تفصیلی تذکرہ کیا۔
دوسرے حصے میں سیکریٹری جنرل جیئند خان نے ملتان میں ہونے والے انجمن ترقی پسند مصنفین کے جلسے کی روداد سنائی، جس میں سنگت کی جانب سے جیئند خان اور شاہ محمد مری نے وفد کی صورت شرکت کی۔ انھوں نے بتایا کہ یہ بنیادی طور پرملتان کے ساتھیوں کی جانب سے سرائیکی وسیب پر مشتمل انجمن کا کنونشن تھا۔ جس میں سرائیکی وسیب کے مختلف اضلاع سے ساتھیوں نے شرکت کی۔پہلے روز بند اجلاس تھا، جس میں تنظیمی امور زیر بحث لائے گئے۔اس کی صدارت شاہ محمدمری سے کروائی گئی۔ ہم نے ان کی تنظیمی صلاحیت اور فکری وابستگی پر خوشی کا اظہار کیا، اور ان سے اپنے روابط بڑھانے پر زور دیا۔ جس میں ایک دوسرے کے رسائل اور کتب کا تبادلہ نیز ایک دوسرے کی تقریبات میں ہر ممکن طور پر شرکت شامل ہے۔ دوسرے روز ملتان یونیورسٹی میں سیمینار رکھا گیا تھا۔ وہاں بھی عصری ادب پر ترقی پسند تناظر میں بات ہوئی۔ یہ اور بات کہ بلوچستان کا تذکرہ وہاں کہیں نہ تھا، البتہ فکری و نظریاتی طور پر بھرپور مقالے پڑھے گئے۔ مختصراً، یہ ایک حوصلہ افزا دورہ تھا۔
ساتھیوں نے انجمن کی کوئٹہ میں جاری سرگرمیوں، بالخصوص سرکاری سطح پر منعقد ہونے والے حالیہ مشاعرے میں پرانی کابینہ کی موجودگی اور اعلانیہ اطلاع پر اپنی تشویش کا اظہار کیا، نیز یہ طے پایا کہ اس سلسلے میں انجمن کے مرکزی قائدین سے رابطہ کیا جائے جنھوں نے کوئٹہ کے اپنے گذشتہ دورے میں سنگت کے ساتھ طویل بحث و مباحثے میں جو نکات طے کیے تھے، ان کی پاسداری سے متعلق بات چیت ہونی چاہیے۔
آخر میں سنگت کے کنونشن اور مرکزی سیمینار سے متعلق بات چیت کی گئی۔طے یہ پایا کہ اگلے ہفتے جنرل باڈی اجلاس بلایا جائے، جہاں اتفاقِ رائے سے معاملات طے کیے جائیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کراچی
پروین ناز
بلوچستا ن یونین آف جرنلٹس کے سابق جنرل سیکرٹری اور مقامی نیوز ایجنسی کے بیوروچیف نامورصحافی و دانشور ارشادمستوئی اور دیگرشہیدصحا فیوں کی یاد میں ’’سنگت اکیڈمی‘‘کے زیراہتمام تعزیتی ریفرنس منعقد ہوا جس میں صحافیوں کی زندگی اور کارناموں پر روشنی ڈالی گئی۔ اور مرحوم شہداء کے حق میں دو منٹ کی خاموشی اختیار کی گی۔
اس فورم میں مہردرکی ایڈوائزری ممبر اور سنگت اکیڈمی کراچی کی سیکریٹری جنرل پروین ناز ،صحافی جی ایم بلوچ،شاعروادیب شاکرشاد ،نیوز ون کے ماہر بلوچ، صحافی ودانشورابوبکر ،یوتھ سوشل ایکٹیوسٹ فہیم شاد،حاصل مراد ، مزمل بلوچ،شعور احمد،اور دیگرسماجی اور ادبی دوستوں نے شرکت کی۔
اس تعزیتی ریفرنس میں موجود شرکاء نے شہیدصحافی ارشاد مستوئی کے کارنارموں صحافتی کارکردگی کے اوپر بات چیت کی ۔ نہ صرف بلوچستان میں صحافیوں کے ساتھ ہونے والے مظالم ،ٹارگٹ کلنگ اغوااور دھکمیوں کے سنگین رُجحان پرغم وغُصّے کا اظہارکیا بلکہ سندھ کی سطح پر بھی۔ اس بات پر تجزیہ کیا گیا کہ ایک صحافی کی زندگی کن مسائل و مشکلات کو طے کرتے ہوئے اپنے سفر کو جا ری رکھتی ہے۔صحافیوں کو کن چیزوں کو دیکھتے ہوئے اپنے قلم کو استعمال کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس شعبے سے وابستہ لوگوں کی سلامتی برقرار رہ سکے۔ساتھ ہی ساتھ شہید صحافی اوراس کے ساتھ شہید ہونے والے صحافیوں کی خدمات کوسرایاگیااور کہا گیاکہ صحافیوں کا کردار معاشرے میں بہت اہم سمجھاجاتا ہے کیونکہ وہ اپنے عہد کے عکاس ہوتے ہیں۔ حق اور سچ لکھنے والوں کا مقصد انصاف اور حقوق کی رسائی عام لوگوں تک پہنچانا ہوتا ہے،مگراس پہ ستم ظریفی یہ ہے کہ یہی صحافی اور اس عہد کے لکھنے والے عدم تحفظ کے شکار ہیں ۔ اس تعزیتی ریفرنس میں سنگت اکیڈمی کی جانب سے صحافیوں کی زندگی مشکلات ،مسائل ،اور اب تک شہید ہونے والے صحافیوں کی زندگی پرپریزنٹیشن
دی گئی اور بلوچستان یونین جرنلزم کی طرف سے بنائی گئی documentaryبھی تمام شرکاء کو دکھا کر اس پر ایک بحث و مباحثہ کا سلسلہ رکھا گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سنگت جنرل باڈی اجلاس

سنگت اکیڈمی کا جنرل باڈی اجلاس 20ستمبر کی شام پروفیشنل اکیڈمی میں منعقد ہوا۔ جہاں اراکین کی اکثریت نے شرکت کی۔ طویل، مسلسل اور سیر حاصل مباحثے کے بعد درج ذیل نکات پر اتفاق ہوا:
1۔سنگت کا مرکزی کنونشن اور کانفرنس کی دو روزہ تقریبات اسی سال نومبرکے پہلے ہفتے میں منعقد ہوں گی۔
2۔ کنونشن کے پہلے روز، نئی کابینہ کی تشکیل ہوگی۔
ٍ 3۔ الیکشن کمیشن سرورآغا کی سربراہی میں، وحید زہیر اور ڈاکٹر منیر رئیسانڑیں پر مشتمل ہو گا۔
4۔الیکشن میں حصہ لینے کے لیے کاغذاتِ نامزدگی15اکتوبر تک جمع کروائے جا سکیں گے۔
5۔آئین میں مجوزہ تجاویز بھی15اکتوبر تک جمع کروائی جا سکیں گی۔
6۔پہلا دن دو سیشن پر مشتمل ہوگا، پہلے سیشن میں سیکریٹری جنرل دو سالہ کارکردگی رپورٹ پیش کرے گا، جس کی منظوری قبل ازیں مرکزی کابینہ سے لی جائے گی۔ دوسرے سیشن میں تین مقالے درج ذیل عنوانات کے تحت پڑھے جائیں گے؛
الف: ادب اور بے گانگی
ب:ادب اور مستقبل: ترقی پسند تناظر
ج:کثیر الثقافتی معاشرے کی نعمتیں
7۔دوسرے روز تین سیشن ہوں گے، پہلے سیشن میں سنگت کی مطبوعات کے حوالے سے دو مضامین پڑھے جائیں گے؛
اول: سنگت کی عمومی مطبوعات
دوم: سنگت تراجم سیریز کی مطبوعات
دوسرا سیشن مشاعرے اور تیسرا سیشن لوک موسیقی پر مشتمل ہو گا۔اسی روز نئی کابینہ کی تقریبِ حلف برداری بھی ہو گی۔ مشاعرہ سنگت کے جواں مرگ ساتھی ، دانیال طریر کے نام منسوب ہو گا۔ ایک مختصر ڈرامہ بھی پیش ہو گا۔
8۔مقالوں اور مضامین کے لیے ایک چھ رکنی کمیٹی بنائی گئی، جو طے مضامین کے لیے مصنفین کا تعین کرے گی، نیز 15اکتوبر تک ان سے مضامین لے لے گی، اور ان کا جائزہ لے کر منظوری بھی دے گی۔کمیٹی آغا گل ، افضل مراد،ساجد نبی بزدار،جاوید اختر،جیئند خان،عابد میرپر مشتمل ہو گی۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے