وینگو کی پینٹننگ دیکھی ،
جیسے گزرے موسم کے سب دھندلے منظر
سالوں کی دہلیز سے ہوتے
آنکھوں کے گلشن میں اترے
مارچ کے دن تھے ۔
چلتن پر بھی رنگ کھلے تھے۔
بادل تھے ۔ جو ہتم کی پہل بارش کا سندیسہ لائے
کیمپس کی سڑکوں پہ پہروں
چلتے چلتے تمھیں اچانک
باداموں کے پھولوں کی اک
شاخ ملی تھی ۔
جسے اٹھا کر ہم نے کتنی دیر تلک
ہاتھوں میں رکھا۔
اس کی کچی خوشبو اب بھی
وہم میں جیسے بسی ہوئی ہے
وینگو کی پینٹننگ دیکھی تو جیسے
احساس ہو اکہ
باداموں کے پھولوں والی ٹہنی جاناں!
یادوں کے اس کونے والی میز کے اوپر
دوری کے گلدان میں اب بھی دھری ہوئی ہے

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے