اس نگر کو چھوڑ کر اک بن میں بس جائیں گے ہم
ریزہ ریزہ ٹوٹ کر کیا دل کو دکھلائیں گے ہم
یہ بدن ہے خاک کا ہم خاک کی تجسیم ہیں
مثل شعلہ جل کے یارو راکھ بن جائیں گے ہم
اس جہانِ رنگ و بو میں سہل ہے کب زندگی
زیست ہے اک تیز رتھ کیسے اسے پائیں گے ہم
آگ کا بس ایک دریا تو نہیں ہے سامنے
اِک مسلسل آگ ہے لیکن نہ گھبرائیں گے ہم
ہے یہ جگ تیرا پہ میں نے بھی بسایا ہے اسے
شب ترِی ‘ دن تیرا ‘ شاید نقش بن پائیں گے ہم
اب تو یہ معمورہ اک ویرانہ ہو جانے کو ہے
رحم کر یا رب نہیں تو راکھ ہو جائیں گے ہم
عقل دوراہے پہ ہے اور عشق ہے حیرت زدہ
دو صدا رومی کو ورنہ طے نہ کر پائیں گے ہم
موت گلیوں میں ہے رقصاں دوش پہ نیزے رکھے
رزم آخر ہے بپا کیا حشر اٹھا پائیں گے ہم

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے