نوشین قمبرانڑیں
تمھارے ساتھ اڑنے کو جو پر کھولے
تو میرے اس وجودِخستہ و بے طور میں
محسوس ہوتی تھیں،
ملائم کانچ کی چبھتی ہوئی وہ کرچیاں
جو ذات کے پرہول لیکن دلربا رستوں سے ہوتی،
انتڑیوں تک اترتی جارہی تھیں..
اذیت ناک و فن کارانہ باریکی سے مجھ کو
چیرتی معلوم ہوتی تھیں۔۔۔۔۔۔
میں اپنے پر نہیں پھیلا سکی سنگت!
تمہیں تنہا ہی اڑنا تھا،
سفر کے واسطے دیری ہوئی جاتی تھی تم کو بھی.
اماں میں راستوں کی تم کو رہنا تھا،
سپردِباد کر آئی تمہیں آخر
کہ میری معنویت کا یہی واحد قرینہ تھا
کہ شاید کانچ کے ٹکڑوں نے
میرا وقت جینا ہے..

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے