شعبہ بلوچی سال بھر میں چار،پانچ ادبی و علمی سیمینار ضرور منعقد کرتا رہتا ہے۔ گزشتہ مہینے بلوچی زبان کے مشہور مزاح نویس جناب محمد بیگ بیگل اور بلوچی غزل کے منفرد لہجے کے شاعر ظفر علی ظفر کو ’’ادبی کمنٹمنٹ ایوارڈ‘‘ سے نوازا۔ اور اسی مہینے کے آخر31 اکتوبر میں میر عبداللہ جان جمالدینی کی ادبی خدمات پر ایک منفرد نوعیت کے سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔چلو اس سیمینار کے حوالے سے ہم کہانی کی منظر کشی کرتے ہیں۔ خنک فضا آگ جیسی تمنائیں لئے صبح آہستہ آہستہ نمودار ہو رہی تھی اور ہم دل ہی دل میں نظامت کی ذمہ داریوں کا ریاض کرتے ہوئے جامعہ بلوچستان پہنچے جہاں عبداللہ جان جمالدینی کی پینا فلکس ہم سے محو کلام ہوئی ہے۔ عبدالباسط شیخی کی پورٹریٹ میں وہ کچھ کہہ رہی تھی مگر ہم وہ نا فہم سمجھ سے قاصر تھے چونکہ معنی کا ابلاغ اندر سے ہوتا ہے۔ ہم نے یہی سمجھا کہ وہ لب بستہ ہوکر بھی یہ فرمارہے ہیں’’ مجھ پر گفتگو کے لئے یہ ضروری ہے کہ بلوچی میں میری تخلیقات کتابی صورت میں موجود ہوں۔ تب آپ میرے ساتھ انصاف کریں گے۔ ہاں یہ ہے کہ گل بنگلزئی ، عابد شاہ عابد اپنی محبت کا اظہار ضرور فرمائیں گے اس عہد میں یہ بھی غنیمت ہے اس لیے کہ اب تک ہمارے یہاں علمی مکالمے کا آ غاز نہیں ہو ا ہے ۔ علمی مکالمے کے لئے ضروری ہے کہ کتابیں موجود ہوں‘‘ میں نے فینا فلکس کے ذرا اور قریب جاکر کہا کہ ’ جناب محترم آپ کی ’زندنامک‘شعبہ بلوچی کی جانب سے کتابی صورت میں چھپ چکی ہے اور ہمارے سنگت رفیق نے بڑی محنت سے آ پ کی منتخب تحریروں کو بلوچی اکیڈمی کی جانب سے کتابی صورت میں ترتیب دیکر شائع کیا ہے۔ آ ج آپ پر مکالمے کے ساتھ ساتھ دونوں کتابوں کی تقریب رونمائی بھی ہوگی‘‘ ۔ اس بات سے وہ خاموش ہوئے اور میں شعبہ بلوچی کی جانب روانہ ہوا کہ پیچھے سے یہ آ واز آ ئی۔
ہر گز نمیرد آنکہ دلش زندہ شد بہ عشق۔۔۔۔۔ثبت است بر جریدہ عالم دوامِ ما۔
میں نے جواباً مولانا روم کا یہ شعر دہرایا ۔
سِر من از نالہِ من دور نیست۔۔۔۔۔ لیک چشم و گوش را آن نور نیست ۔
سورج نکلتا گیا ۔آہٹیں ،آوازیں آتی رہیں ،لوگ آتے رہے کاروان بنتا گیا ۔ شعبہ بلوچی کے اساتذہ بہ ہمراہِ چیئر مین مہمان ادبا و دانشوروں کے استقبال و خو ش آمدید کہنے کے لئے آرٹس فیکلٹی کے دروازے پر کھڑے تھے۔ پیچھے سے عبداللہ جان جمالدینی کا پینا فلکس کے اندر پورٹریٹ بھی یہاں وہاں دیکھ رہا تھا شاید اسے شاہ محمد مری کا انتظار تھا ۔عابد شاہ عابد آئے، گل بنگلزئی آئے، نذر پانیزئی آئے، جیہند خان جمالدینی اپنے احباب کے ساتھ وارد ہوئے تو ہم آڈیٹوریم کی جانب روانہ ہوئے۔ جہاں شعبہ بلوچی کے طلبہ و طالبات کے ساتھ ساتھ بڑی تعدا د میں جامعہ کے اساتذہ اور اہل ذوق پہلے سے تشریف فرما تھے ۔
میں اسٹیج پر آیا اور باقاعدگی سے اس پر وقار سیمینار کا آغاز کیا۔ اس کی روداد کچھ اس طرح ہے۔ ’’ آ پ سامعین باخبر ہیں کہ آج کا یہ سیمینارمیر عبداللہ جان جمالدینی کی ادبی خدمات پر منعقد ہورہا ہے۔ اس محفل کی صدارت کے کئے میں جناب پروفیسر ڈاکٹر محراب صاحب سے استدعا کرتا ہو کہ وہ سٹیج پر تشریف لے آئیں۔
تالیاں بجتی ہیں مہمانان گرامی سٹیج پر تشریف فرمانے لگے، جناب چیئرمین شعبہ بلوچی رحیم بخش مہر ، براہوئی زبان کے بڑے مترجم جناب گل بنگلزئی ، پشتو زبان کے شاعر جناب عابد شاہ عابد، جناب نذر پانیزئی ، بلوچی زبان کے شاعر جناب عبدالحمید شیرذاد، محترمہ ڈاکٹر زینت ثنا ، جناب ڈاکٹر عبدالحمید شاہوانی، جناب جیہند خان جمالدینی ‘‘۔
تلاوت کلام پاک سے پروگرام کا آغاز ہوا، پھر ہم تھے اورسٹیج کی دنیا داری تھی ۔ چیئر مین شعبہ نے سٹیج پر آکر مہمانوں کو خوش آمدید کہا اور عبداللہ جان جمالدینی کی ادبی زندگی پر مختصر اور جامع انداز سے روشنی ڈالی ،اس کے بعد نسرین گل نے عبداللہ جان کی سوانحی زندگی پر اپنا تعارفی مضمون پیش کیا ۔ شعبہ کے چیئر مین نے کہا عبداللہ جان جمالدینی ایک کمیٹڈ ادیب ہیں ساری عمر ادب اور انسانیت سے عشق کرتے رہے ہیں جدید بلوچی ادب میں روشن فکری کا آغاز انہی سے ہوتا ہے۔ سنگت رفیق سٹیج پر آئے اور اپنی کتاب جو عبداللہ جان جمالدینی کی تحریروں مشتمل ہے اسی محبت کی داستان کو مختصراً اس طرح بیان کیا ’ عبداللہ جان جمالدینی کی خاموشی ایک خوبصورت شخصیت کی بڑی پہچان ہے۔ انکی تخلیقات کو بلوچی ادب میں ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ ڈاکٹر زینت ثنا سرخ ملبوسات میں اس طرح فرمانے لگی ’’ 1985 میں جب بلوچی ڈیپارٹمنٹ کا قیام وجود میں آیا تو پڑھنے والا کوئی نہیں تھا ، جناب عبداللہ جان جمالدینی کی محبت اور شفقت مجھے اس ڈیپارٹمنٹ میں کھینچ کر لائی ، اسی کی شفقت نے مجھے بلوچی میں ایم اے کرنے پر اکسایا ۔زندگی بھر اس کا یہ احسان یاد آتا رہے گا، اتنی بڑی شخصیت کے بارے میں ،میں کچھ اور بولنے کی جرات نہیں کرسکتی۔‘ زینت کے بعد ڈاکٹر عبدالحمید شاہوانی نے بھی اپنی یاداشت کی گرہیں کھولتے ہوئے اس موسم کو یاد کیا جب وہ اس یونیورسٹی میں طالبعلم تھے اور عبداللہ جان جمالدینی پروفیسر۔ ’’ انہوں نے مجھے پی ایچ ڈی کے لئے اکسایا تھا مگر میرے کام کی تکمیل سے پہلے وہ بیمار ہوئے۔ اور میں ان کی سرپرستی سے محروم ہوا۔ ‘‘ قاضی عبدالحمید شیرزاد اپنی خطیبانہ انداز میں اگر کچھ بھی نہ بولتے انکی آواز اتنی بھاری تھی کہ لوگ ہمہ تن گوش ہوکر سنتے ۔’’ عبداللہ جان جمالدینی پر کچھ کہنا چھوٹے منہ اور بڑی بات والی مثال ہوگی ، ہم ساتھ رہے، ساتھ جئیے، ساتھ خواب بُنے، میر صاحب نے بلوچی ادب کے لئے دن رات محنت کی ، روشن فکری کی فضا کو مہکانے میں ان کا بڑا ہاتھ ہے۔‘‘ نذرپانیزئی اپنی باتیں قلم بند کرکے آئے تھے ۔ ’’ میر صاحب ایک انقلاب کی حیثیت رکھتے ہیں انہوں نے ہماری ذہنی و فکری تربیت کی ہے۔ آ ج میں جو کچھ بھی ہوں
وہ سب انکی مرہون منت ہے۔‘‘عابد شاہ عابد معلم بن کر لب کشا ہوئے۔’’ ایک دو کتابیں پڑھنے سے کوئی عالم نہیں بنتا ،زندگی بھر کی تلاش و جستجو کانام علم ہے۔ میں خوش نصیب ہوں کہ میر صاحب کے ساتھ محافل میں ہمیشہ شریک رہا ہوں ، اس کی علم سے مستفیض ہوتا رہا ہوں ۔ وہ ایک کھلی کتاب کی طرح ہیں ہر صفحہ پر ان کی خوبصورت شخصیت نظر آتی ہے۔‘‘ گل بنگلزئی براہوئی تحریر سے سامعین سے مخاطب ہوئے تو یہ کہا ’’ وہ ایک ایماندار اور مخلص انسان ہیں ، ایک درویش صفت انسان کے سائے میں بیٹھ کر ہم نے وہ کچھ حاصل کیا جو ایک لائبریری کی بساط میں ہوتی ہے۔‘‘ جیئند خان جمالدینی کو گفتگو پر اکسانے کے لئے ہم نے ن م راشد پر انکے بیٹے شہریار کی کتاب ، ناصر کاظمی کے بیٹے باسر کاظمی جنہوں نے اپنے والد کی ڈائری کو مرتب کیا حوالہ دیکر اسٹیج پر بلوایا، ہنستے اور مسکراتے ہوئے وہ جب اسٹیج پر آئے تو فرمانے لگے۔ ’’ میرے والد صاحب نے ہمیشہ ہمیں دنیا کی کلاسک ادب پڑھنے کی تلقین کی اور خود ادب تحریر کرنے پر بھی اکسایا۔کہا کہ کچھ نہ کچھ ضرور لکھا کریں تاکہ آپ اپنے خیالات کو ترتیب دے سکیں۔‘‘ پرووائس چانسلر ڈاکٹر محراب صاحب نے کہا ’’ عبداللہ جان جمالدینی ساری زندگی انسانیت سے محبت کرتے رہے اور اسی محبت سے سایہ دار شجر پیدا ہوئے جو ہمارے لئے گراں مایہ سرمایے کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ اس طرح کی شخصیت ہمیشہ پیدا نہیں ہوتی ہیں۔ شعبہ بلوچی نے خوبصورت سیمینار کا انعقاد کرتے ہوئے جامعہ بلوچستان کے دوسرے شعبہ جات کی تقلید کی۔ احساس کو منور کیا۔ لازم ہے کہ وہ بھی اسی طرح کی علمی ،ادبی و سائنسی سیمینار کرتے رہیں تاکہ ہم تنگ دائرے سے نکل کر روشنی کے سائے میں آ جائیں ۔ ‘‘
سیمینار اختتام پذید ہوا ۔ چائے بسکٹ کی دنیا میں گفتگو اب بھی جاری تھی مگر ہم خاموش اس نظارے کو محسوس کر رہے تھے ۔عبداللہ جان جمالدینی کی محبت کی مہک چہارسو پھیل چکی تھی مگر تمام عمر کہاں کوئی ساتھ دیتا ہے لوگ آہستہ آہستہ اپنی منزل کی طرف روانہ ہوئے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے