شب گزیدہ اس سحر میں روشنی بہنے لگی
یعنی مجھ میں تیری صورت زندگی بہنے لگی

چاند، بادل، رات ، صحرا ، تیر ا کاندھا میرا سر
ریگ زارِ خواب میں پھر چاندنی بہنے لگی

کیا حسیں منظر ہے جس میں، میں بھی ہوں اور تو بھی ہے
ٹین کی چھت پر برستی خاموشی بہنے لگی

تیرے دل سے میرے دل کا کیا سہانا میل ہے
پر بتوں کے ساتھ کوئی اک ندی بہنے لگی

سات رنگوں کی دھنک ہے میرے چہرے پر سجی
بادلوں کے ساتھ میری اوڑھنی بہنے لگی

میرے کانوں نے سنی تھی کب میرے دل کی پکار
کیا ہوا کیوں صحن دل میں راگنی بہنے لگی

نیلی تتلی پھر ملی ہے سبز ہوتی گھاس پر
باغ پھر سے کھل رہا ہے پھر خوشی بہنے لگی

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے