بگولے آج دیکھیں گے تماشا
مجھے گھنگرو کوئی پہنا رہا ہے

فضا سب چھلنی چھلنی ہو گئی ہے
کوئی کیوں اس طرح چلا رہا ہے

پگھل جائے گا اس سے آسماں بھی
جو سورج دل میرا دہکا رہا ہے

مرے ماتھے پہ اپنے ہونٹ چھوڑے
نہ جانے کس نگر کو جا رہا ہے

مری چیخوں کے لاشے بچھ رہے ہیں
مرے آنسو کوئی دفنا رہا ہے

بدن میں تیرتا ہے آگ بن کر
لہو اپنا مجھے جھلسا رہا ہے

کوئی تو خاک ہو کر راکھ ہو کر
میرے قدموں سے لپٹا جا رہا ہے

مرے ہونٹوں پہ تالے لگ رہے ہیں
مرے ہاتھوں کو کاٹا جا رہا ہے

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے