نہ سمجھا ہوں نہ سمجھایا گیا ہوں
کسی الجھن میں الجھایا گیا ہوں
میں حیراں ہوں کہ اِس حیرت کدے میں
کہاں تھا اور کہاں لایا گیا ہوں
سمٹ سکتی ہے کیسے میری وسعت
مثال دشت پھیلایا گیا ہوں
مجھے لگتا ہے اِس کون و مکاں میں
کبھی پہلے بھی میں آ یا گیا ہوں
بگولا ہوں سِر صحرائے ہستی
کہیں کھویا کہیں پایا گیا ہوں
ابھی تک جو نہیں گائے گئے ہوں
میں اُن گیتوں میں بھی گایا گیا ہوں
کبھی کاغذ کبھی پتھر سِلوں پر
میں لکھا اور لکھوایا گیا ہوں
مجھے لگتا ہے میں ہوں دیکھا بھالا
بنا کر پھر سے بنوایا گیا ہوں
میں ایسا ظلم ہوں جو اپنے اوپر
برابر مستقل ڈھایا گیا ہوں
میں صدیوں کی سماعت ہوں کرامت
سنا اور سنوایا گیا ہوں

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے