شاہ محمد مری کی کتاب ’’مستیں توکلی‘‘ کے پس منظر میں

ڈاکٹر شاہ محمد مری لکھتے نہیں توکیا کرتے؟ کہ وہ عاشق ہیں ۔ زمانہ ساز نہیں ۔۔۔ عشق انسانیت کا وہ پہلا اور واحد معیار ہے جو صرف مساوات کے اصول پر قائم رہتا ہے بلکہ عجز کی اس منزل کو جا چھوتا ہے کہ پھر مساوات ، عبودیت میں ڈھل جاتی ہے۔ نفی ذات سے اثبات کی راہ دیکھنے لگتی ہے۔ عشق درد کی تہذیب سے پھوٹتا ، اداسی کی زبان میں مکالمہ کرتا، ہجر کے اندوہ سے دلوں کو جوڑتا اور جغرافیائی حدود کو پاٹتا انسانی تحیر کو مہمیز کرتا رہتا ہے۔ ہر چند عشق اجتماعی ، سماجی تجربہ نہیں ۔ پھر بھی لسانی ، مذہبی ، ثقافتی ، نسلی اور اقتصادی اعتبار سے متنوع معاشرے میں دکھ سے نکلے تہذیبی عمل میں قربانی کی رسم اجراء کرتا ہے۔ جہاں دکھ اور قربانی ہو وہاں تشدد نہیں ہوتا، دہشت گردی نہیں ہوتی ۔۔۔ سو ڈاکٹر شاہ محمد مری سیاستدان نہیں ۔۔۔۔ لیکن سیاست سے الگ نہیں رہ پاتے۔۔۔ کہ جمہوریت ہی حکومت میں ، عوامی شمولیت کا واحد میکانزم ہے۔ وہ سرمایہ داری کے قائل نہیں کہ یہ اقتصادی عدم مساوات سے عبارت ہے ارتکاز ہے، جمالیاتی حقوق سے بے دخلی ہے، ذوق پر حدود قوت کا اطلاق ہے۔ وہ عقائد کو انسانی گروہ سازی کا بڑا محرک سمجھتے ہیں اس لئے صوفی ہیں ۔۔ ۔ کہ انسان کی تقسیم انسانیت کی تحقیر ہے۔ وہ انصاف کو طبقاتی نہیں۔۔۔ آ فاقی مانتے ہیں۔ سرمایہ ، سائنس ،۔ منڈی اور صارف کے درمیان صلاحیتوں کے امکان پر گرفت کے مخالف ہیں کہ یہ روح بقائے آ دم سے متصادم ہے۔ ڈاکٹر صاحب ہر زبان ، ثقافت جغرافیہ اور لباس کا احترام کرتے ہیں کہ فطرت کے جبر کا اظہاریہ ہیں۔ لہذا گلوب پر موجود ہر زبان جس میں اعلیٰ خیالات ہیں ان کی زبان ہے، ہر ثقافت جو انسانوں کو محفوظ و محظوظ ، مطمئن کرتی ہے سرشار کرتی ہے ان کی ثقافت ہے، ہر جغرافیہ جہاں امن ہے ان کا گھر ہے، اور ہر لباس جو ظاہر اور باطن کو یکساں کر دے ان کا لباس ہے۔ وہ آ نسوؤں کے نمک کاذائقہ نہیں بھولتے ، لہو کی لپک اور مزاج کا شعلہ بجھنے نہیں دیتے ۔ شاہ محمد مری ہمہ نوعیت تنوع کو حسن سمجھتے ہیں اور حسن کا احترام نہ کرنا غیر انسانی ، غیر اخلاقی فعل ہے۔
ڈاکٹر انسان کی میٹا پروگرامنگ کو مسترد کرتے ہیں کہ یہ عشق کی روایت کے خلاف ہے۔ عشق جو ہر امتیاز سے بالاتر ہے جو اپنی مسمار صلاحیت میں نئے اور متبادل امکانات رکھتا ہے جو متبادل حقیقتوں کو نظر انداز نہیں کر پاتا۔ عشق جو روایت شکن ہے ۔ جو شرف انسانیت کا امین ہے جو عدم تشدد کا علمبردار ہے خواہ یہ تشدد الوہیت کے لئے ہو سیاست کے لئے ہو معیشت کے لئے ہو یا نئی اخلاقیات کے سائبر سسٹم گلوبلائزیشن ، ذرائع ابلاغ ، ثقافت اور سائنسی علوم پر مخصوص اقوام کی اجارہ داری کے لئے ہو۔ وہ ذہنی اثاثوں اور تخلیقی ہنر مندیوں کی آ زادی کے خواہاں ہیں اور تخلیقی وسائل پر عالمی اشتراک اور عالمی انصاف کے لئے مکالمے کے خواہش مند!۔
اپنی تازہ کتاب ’’مستیں توکلی ‘‘ کی نظم سے ان کی روح بار بار جھانکتی ہے۔ یہ وہ ظرف اظہار ہے جس کے سامنے مزاحمت کم تر تبدیلی کا عمل لگتی ہے۔ اس کھارے پانی کا نمک صحرا کے ہونٹوں پر پیڑیاں بن گیا ہے۔
’’پیاسی ہیں ہر نیاں ، دشوار چٹانوں پہ
آ نکھیں گھما گھما کر دیکھتی ہیں بادلوں کو
بوند کی آ س میں
چشموں کو نہیں جاتیں ، پرانے ٹھکانوں کو
نہیں لوٹتیں
بھر دو جوہڑوں کو، شکاریوں کے لئے ،
کبوتروں کے لئے
منتظر پہاڑی جانور پیاس بجھائیں ، ان غیر
آ باد کوہساروں پہ
ڈھلتی سہہ پہر کو بادل شمال مشرق سے ابھرتے ہیں
سمندر سے بنتے ہیں
باریک بجلیاں چمکاتے ہیں
ونٹریخ اور برگ کے علاقوں پر جم کے برسیں
گھن گرج ہے ساون کی مست گھٹاؤں میں
کہ سموا بھی تک گزارہ کر رہی ہے
کھارے پانی کی تلچھٹ پہ!
(مستیں توکلی)
سرد جنگ کے خاتمے کے بعد کھار ے پانی کی تلچھٹ پہ ساری دنیا کا صارف معاشرہ گزارہ کرنے کی تدبیریں سوچ رہا ہے ۔ فاضل سرمایہ ہی تحقیق واختر اع و ایجاد کا محرک ہوتا ہے لیکن ضروریات پوری نہ کر پانے والی اقوام کی نظریں حقوق ملکیت دانش کی دہلیز پر قدم توڑتی امیدوں کو چنگاری بھی نہیں دکھا پا رہی ہیں ۔ تاریخ کی غلام گردشوں میں اندھیرا پل رہا ہے لیکن اب کے یہ تاریخ ماضی کی نہیں ۔۔۔ مستقبل کی تاریخ ہے۔ بلوچ سماج میں عورت کا مقام، سورج کا شہر، بلوچ قوم ، عشاق کے قافلے ، سویت افسانے ، تراجم کے مجموعے ، سنگت شمارے ،یہ سب مستیں توکلی کا اشاریہ ہیں ۔ یا مست کی روح ۔۔۔ بے قرار روح نہیں کہہ سکتا ۔۔۔ کہ بے قراری میں شعور نہیں ہوتا ۔۔۔ وہ تو شعور ہمہ عصر ہے۔ کتاب کے آخری صفحہ پر لکھا ہے:
’’ہماری نظر میں انکا فیصلہ شعوری بھی ہے اور متحرک بھی،شاید اسی لئے تو ہم Thorn Bird نامی پرندے کو جانتے ہیں کہ وہ کانٹا اپنے سینے میں پیوست کیے ایک ابدی قانون کی پیروی کرتا ہے‘‘۔
اور مست نے ابدی قانون لکھا
’’ہم شعر کہنا شروع کرتے اور فرشتے ہاں کہتے
بارش کی ہواؤں کے فرشتے ہاں کہتے
شاموں کو بادل دھند سے اٹھتے
صبحوں کو عرشی بادل گرجتے
قابل دید ہیں یہ عجب رنگ ہیں
برستے ہیں اور سبز سلام برساتے ہیں‘‘
سبز سلامی کا نغمہ لکھنے والے ہی محرومی کی آگ میں جل سکتے ہیں ۔ یہ پرو می تھی اَس آ گ جلانے کا فن سکھا کر ۔۔۔ سینہ چیلوں کے لئے کھلا چھوڑ دینے کی جرات رکھتے ہیں ۔ آ گ تو کیمیا ہے۔ وہ سائنس کو ٹیکنالوجی اور عشق کو وجدان بنا دیتی ہیں وہ اولمپیا کے پہاڑ ہوں یا کوہ رستررانی ۔
انتظامی کج ادائیوں کی خار دار تاروں سے اترتی صبحوں تا ر تار ہوتی شاموں کے پیراہن ’’نیوز الرٹ کے دل دھلاتی موسیقی ، ٹی وی کی سکرین سے کمرے میں تیرتے خوفناک مناظر ۔۔۔ اطلاعی ادب کی خواہش اور عالمی سودے بازی کا شور انسانوں کی کجلائی ، دھندلی آ نکھوں میں بے یقینی بھر رہے ہیں ۔ ڈاکٹر شاہ محمد مری نے اخلاص کے ساتھ ہر پہلو پر لکھا محبت لکھی اور لکھا۔
’’عشق کمٹ منٹ کے تسلسل کا نام ہے۔اعتبار کامتواتر امتحان ۔ محبت اپنے پیروکار کو تذلیل سے بچاتی ہے، بے توقیر نہیں ہونے دیتی ۔ ہر دروازے پر جھکنے نہیں دیتی ‘‘۔
ادب سے، انسان سے، عشق و صدق سے، انصاف سے، امن سے ، تہذیب سے، یقین سے، امکانات سے اور آ نے والے کل سے محبت رکھنے والے سماج کا کیا یہ اخلاقی فرض نہیں بنتا ہے کہ وہ ڈاکٹر شاہ محمد مری سے پوچھے کہ ’’تم کیا چاہتے ہو؟‘‘ کہ انہوں نے بہت تلخ و شیریں احساسات اور تاریخی حقائق کو دیانتداری سے پیش کر دیا ہے تاکہ وقت اپنی گواہی کی مہر ثبت کر سکے۔ انہوں نے فیصلہ نہیں دیا۔ راستہ دیا ہے۔ مست کا راستہ ۔۔۔!
’’اے خدا ناگہانی آ فات سے بچا
اور سحر گاہ کی نا گہانی فسادات سے بچا
اچانک نیام سے نکلتی تلواروں سے بچا
(مستیں توکلی)
رسم ہے آ گ پر ننگے پیر چل کر ہی بے گناہی ثابت کی جا سکتی ہے۔ سو شاہ محمد مری بیاض’’مستیں توکلی‘‘ لے کر دہکتے انگاروں کا دریا عبور کر آ ئے ہیں ۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے