کس جہاں میں یہ کام کر بیٹھے
معذرت! ہم کلام کر بیٹھے

ہم کو سہنی پڑے گی تنہائی
ہم محبت جو عام کر بیٹھے

زندگی ، جو فقط ہماری تھی
ساری دنیا کے نام کر بیٹھے

ہم سے کس موڑ پر ملے ہو تم
جب فسانہ تمام کر بیٹھے

دشمنی کے بھی کون قابل ہے
دوستی کو سلام کر بیٹھے

خود کو خود بھی کہاں میسر تھے
خود کو تیرا غلام کر بیٹھے

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے