رات کے ڈر سے فضا میں خامشی بہنے لگی
سب ستارے گر گئے اور چاندنی بہنے لگی

آنکھ کیسے موڑ پر میری کھلی تھی نیند میں
خواب میں تصویر تھی جو ادھ بنی بہنے لگی

واقعے کیسے سناؤں تیز آندھی کے تمہیں
کتنی مشکل سے بنی تھی جھونپڑی بہنے لگی

سارے چہرے کھو گئے بس سسکیاں کانوں میں تھیں
جب اندھیرے جل گئے اور روشنی بہنے لگی

وہ تمنا آرزو جس کی جنونی ہوگئی
ایک صحرا دل میں اس کی تشنگی بہنے لگی

اک قیامت اور کوئی زلزلہ سا مجھ میں تھا
جب میرے اندر کی اپنی شانتی بہنے لگی

آنکھ سے گرنے لگی اور سانس بھی رکنے لگی
آہ کے دریا میں میری زندگی بہنے لگی

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے