اُس نے ہمارے رسالے ’’سنگت‘‘ میں افسانہ بھیجا۔ ارے چونک گیا میں۔ ایسا نیا خیال کہ جھٹکا کھاگیا۔کبھی کبھی بے جا طوالت اور غیر ضروری تفصیلات کھٹکتی تھیں مگر بالکل نیا اور انوکھا خیال اِن سب خامیوں کو اپنے گھٹنوں کے نیچے پچھاڑے رکھتا تھا۔
وہ انٹرویو کرنے کی مہارت رکھتی تھی۔ اس کا دعویٰ تھا کہ وہ مجھ سے بہت کچھ اگلواسکے گی۔
وہ خوبصورت شاعری بھی کرتی تھی ، نظم کی شاعری۔ نئے نئے الفاظ لاتیں ، یا بلوچستان میں مستعمل عام الفاظ کو نیا روپ دیتیں۔ خیالات حتمی طور پر تازہ اور نئے ہوتے۔
مگر کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ افسانے ہی لکھتی ۔ اور ذرا پہلے سے لکھتی ۔ یا پھر ملک الموت کو اپنی اذلی ابدی جلد بازی ترک کردینی چاہیے تھی۔ محترمہ گوہر ملک کے بعد بلوچستان میں یہ دوسری بڑی افسانہ نگار ثابت ہوسکتی تھی ۔ مگر موت کو قرآن مارے۔
ہمارے دوست افضل مراد کی امرت اُس شریف انسان کو دھاڑیں مار کر رونے پر لگا کر اپنی گردن شکنجوں پنجوں میں دے کر زمیں دوز ہوگئی۔
ماہنامہ سنگت ایک بہت اچھی ابھرتی افسانہ نگار کی نگارشات کو مزید اپنے صفحوں کی زینت نہ بنا سکے گا۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے