تیسری دنیا کے اکثر ممالک کی طرح بلوچستان کی حکومت اُسی شخص کی رہتی ہے جس کے سر پر ’’ ہما‘‘ نامی پرندہ بیٹھتا ہے۔ یہ ہے تو عام سی، اور شاید عالمگیر بات ۔ مگر ’’ ہما‘‘ کوئی عام اور فرضی پرندہ نہیں، ایک دیو ہیکل عقل و منصوبہ بندی کا مالک ہے۔ ہر ایرے غیرے کے سر پرنہیں بیٹھتا بلکہ یہ اپنے پالتو کردہ کے سر پہ بیٹھتا ہے۔ اور بہت ہی لا ابالی انداز ہے اس کا ۔ سنجیدہ سر پہ تو بیٹھتا ہی نہیں اور اگر بیٹھے بھی تو سال بھر میں جی اکتا جاتا ہے۔ اُسے بس رنگ رنگیلے سر اچھے لگتے ہیں۔ جن کی تین سو دُم کٹی گھوڑیاں ہوں اور سینکڑوں کا حرم ہو۔۔۔۔۔۔
آئین کی رو سے ووٹ کی حکومت ،پاکستان میں پانچ برس ہوتی ہے۔اس سے غرض نہیں کہ ووٹ خریدے ہوئے ہوں، یادھمکا کر لیے گئے ہوں ،یا کسی اور طریقے سے حاصل کیے ہوئے ہوں۔۔۔۔۔۔بس ’’ ہما‘‘ کی خواہش و منشا پورا ہو۔ مگر اِس باربلوچستان میں یہ مدت پانچ کی بجائے نصف یعنی ڈھائی برس کی ہے۔ آدھی حکمرانی، نیم روز کا دِن۔
ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اپنی نصف گزار کر چلے گئے ۔اب کے نصف مدت کی حکمرانی جھالاوان کے سرداروں کے سردار کی سربراہی میں قائم ہوئی۔ اُس میں بھی مشرقی بلوچستان کے قبائلی چیف، جنوبی بلوچستان کے فیوڈل گھرانے، شمالی اور مغربی بلوچستان کے نیم سیاسی نیم قبائلی وڈے وڈیرے ساتھ تھے، اِس میں بھی ۔بلوچستان اسمبلی کی کمپوزیشن ہی ایسی ہے کہ اس میں سردار ہی سردار اور جاگیردار ہی جاگیردار ہیں۔ لہٰذا 18 رکنی کابینہ میں سرداروں اور فیوڈلز کی واضح اکثریت کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے۔
کتنے اخباری کالم اس نصف و نصف پر لکھے گئے ، کتنے ٹی وی نشستند و گفتند والے پروگرام ہوئے۔تجزیے تبصرے۔۔۔۔۔۔ مگر سب جھوٹ۔ کوئی نصف و نصف نہیں ۔ کوئی ڈھائی سالہ نہیں۔ لوگوں نے ’’ نظام‘‘ کو اس قدر احمق کیوں سمجھ رکھا ہے۔ ارے بھئی پچھلی کابینہ میں بھی سردار اورفیوڈل تھے، اب کی کابینہ میں بھی سرداراورفیوڈل ہیں۔۔۔۔۔۔تسلسل۔
لہٰذا مرکز سے وفاداری پرچھو ٹا مو ٹا کمپرومائز چل سکتا ہے، اسلام آباد سے کم یا زیادہ وفادار ہوا جاسکتا ہے، مگر حکمرانی کی طبقاتی ساخت میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں۔’’ حکمرانی سردار کی‘‘ یہ حتمی فارمولا ہے بلوچستان میں۔ لاکھ سر ٹکرا کے دیکھو، بار بار نام بدل کر آزماؤ ، اِس فارمولے میں کبھی تبدیلی نہیں آسکتی۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے