ہم سرد پہاڑوں کے گرم دل کے مکیں ہیں
اخلاص و مروت سے ہے صدیوں کا تعلق
سکھلائی بگولوں نے ہے آوارگی ہم کو
صحراؤں کی فطرت سے ہے صدیوں کا تعلق
رہتے ہیں کبھی برف کی سنگت میں بہت چپ
چشموں کی روایت سے ہے صدیوں کا تعلق
ترشا ہی نہیں جھوٹ کا بت ہم سے کبھی بھی
بس حق کی عبادت سے ہے صدیوں کا تعلق
لکھا ہے یہی اپنے قبیلے کی جبیں پر
الزامِ شجاعت سے ہے صدیوں کا تعلق
ہم لوگ وفاؤں کے مجاور ہیں ازل سے
انساں کی عقیدت سے ہے صدیوں کا تعلق
اس خانہ بدوشی میں گئے چھوٹ کئی لوگ
ہر طور کی ہجرت سے ہے صدیوں کا تعلق
فارسؔ دلِ بیتاب بھی ورثے میں ملا ہے
عشق اور محبت سے ہے صدیوں کا تعلق

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے