’’ ہمارے لفظ وہ پنجرے ہیں
جن میں طائرِ احساس کو
میٹھی دوام زندگانی کے،
ابد کے
دانہ پانی پانی والے
پیمانے میسرہیں۔

وہ پیہم معنویت کے چگے جاتا ہے دانے
اور اپنی جاودانی کو
اسیری میں دھڑکتا دیکھتا ہے
ہنستا ہے شکستِ مرگ پہ
اور آپ ہی
اپنے پروں میں چھپ کے اپنے دام کا
ہلکا سنہری رنگ اوڑھے گیت گاتا ہے۔
ہمیشہ کی فضا میں چہچہاتا ہے۔

یہاں کچھ فلسفیوفِ زماں بھی
ان سروں پہ رقص کرتے ہیں

وہ جن کے علم و فکر و فن کے پارے
اس جہانِ حرص و طاقت اور
جنگ و جبر کے آقاؤں سے بچ کر
کبھی جلتے کتب خانوں سے بھاگے تھے
کبھی ہجرت کے مارے
بے سروسامان انسا
نوں کے
بچوں اور خوردونوش کی اشیا کے ہمراہ
بچ کے نکلتے تھے۔

کبھی کونسٹینٹی نوپل اور کبھی ایتھنز،
کبھی بغداد میں یا کو نیا یا ٹیکسلا میں
اپنے پہلے جنم کے باعث
کوتاہ فہم آقاؤں یا تنگ دل
مذہبی بے خیر پنڈت اورملاؤں سے چھپ کر
یا کبھی سفاک حملہ آوروں کے جہل سے
بچ کر
پناہ کے واسطے وہ طائرِ احساس کے ہمراہ
انہی لفظوں کے پنجروں میں رہے محفوظ۔

یہ فن پارے ہیں اپنی جہد پہ نازاں
یہ کیسے انقلابی ہیں
سفر کی سختیوں سے بھی
کہیں رکتے نہیں
تھکتے نہیں
وہ پیہم ذہن سازی میں لگے ہیں
اور ابد کا وہ سنہرا گیت گاتے ہیں
کہ جس کی دھن پہ ہم خوابیدہ خوابوں کا
تسلسل گنگناتے ہیں
یہاں پر مرگِ جسم و جاں کا ماتم
ہیچ ہے گو یا
یہاں آزادیاں ہیں
یار ہیں شاعر ہیں، و چزہیں
یہاں ہر دور کے
ہمزاد ہیں، ہمزادیاں ہیں
اور دائم زندگانی ہے‘‘

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے