سوچوں میں انگارے بھرنے والے لوگ
پھولوں کے موسم سے ڈرنے والے لوگ

اب تقدیس کی ہٹی کھول کے بیٹھے ہیں
لفظوں سے بدکاری کرنے والے لوگ

لگتے ہیں آوازوں کے قحبہ خانے
بن کر اُجلی نہر بپھرنے والے لوگ

بستی بستی ڈھونڈ کے آخر لے آیا
دل اندھیارا ۔۔۔دیپک دھرنے والے لوگ

ہونے اور نہ ہونے کے ہیں صورت گر
تھوڑا تھوڑا کرکے مرنے والے لوگ

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے