(عطا شاد کی نظم’’ گل کدہ‘‘ سے ماخوذ)
وہ مسافت ایسی مسافت نہیں تھی کہ طول و عرض کے نا پنے کے لیے گز،فٹ ،انچ کا حساب درکار ہو ۔یا مربع فٹ کے حساب سے یادر کھا جا ئے ۔
یہ تو مسافت تھی جس کافا صلہ بے انت تھا ۔مسافت درمسافت تھی اور زادہ راہ ؟۔ ہاں زادراہ تو بس وہ اک لطیف سا احساس تھا جو اسکی روح میں پنہاں تھا جو روح کی آغو ش میں ہمکتاتھا
تو سفر کیلئے روح اسے لے کے چل پڑتی تھی۔
فکرو شناخت کے گو شوں میں کچھ نہ کچھ تلاش کر تی ہو ئی ۔روح کا سفر بھی عجیب سفر ہے
پرانے قدیم مقابر کے کتبوں جیسی دھول میں اٹکی ہو ئی روح تھی مگر سوچ کے ہر ہر زاویے میں کر ن ونو ر جیسے عکس نظر آتے تھے ۔وہ سچے جذبو ں کی متلاشی تھی ۔
روح کا مسکن تھی کسی مہر گڑھ میں۔ مگر اس کا سفر کسی قدیم ،ضخیم کتاب کے اوراق کی طرح پلٹتا جاتا ہے۔ ہر ورق نئی داستان لئے منتظر تھا ۔
روح کی زمین ایسی زمین تھی جہا ں سبزے کے نشان بھی تھے ۔ قحط کے ویران بھی مقیم تھے ۔ رو ح نے لہلہا تے ، جھو متے گا تے لمحو ں کی فصل کا ٹ تو لی مگر اس سبز ے کو ماند نہ پڑنے دیا ۔
اسی کو تو محبت کہتے ہیں ۔
مگر جو بھی اسے ملتا وہ اس سے اپنی اک شنا خت قائم کر لیتا۔ کو ئی سو چتا برسو ں قبل میرے دل میں یہی عکس تھا جو جا وداں تھا۔ کو ئی کہتا ارے !یہ تو وہی ہے جو میرے روح کا حصہ ہے ۔کسی کو یک لخت احساس ہو تا کہ سکو ن کی مٹھا س جس سے منسلک ہے یہ وہی دریا ہے۔ کو ئی اسے اپنے خالی آسماں کا چندا قرار دیتا اور کہتا ایساچنداجس کی روشنی میں پنچھی بیٹھے گیت گا ئیں جو صبح سور ج کی کر ن کا انتظار تک نہ کر یں۔ ایسا چند جو مسکرائے تو اجالے اسکے ارد گرد رقصاں ہو ں ۔ اور کسی کو لگتا کہ اسکی آواز بہت قدیم مہر گڑھ کی کسی دو شیزہ کی آواز ہے جو مشکیزہ میں پا نی بھر نے دریا کنا رے تنہا بیٹھی گیت گا رہی ہے۔
ہر کو ئی حصو ل کی تگ ودومصر وف، ہر کو ئی دل کی اتھا ہ گہرائیو ں میں پہنا ں اپنی محبت کی معراج اسے قرار دینے کو بے چین تھا مگر عجیب با ت یہ تھی کہ وہ کسی کی محبت کے مسکن میں ٹھراؤ ں کا سو چتی بھی نہیں تھی ۔
اس کے اندر کا سفر اس قدر طو یل تھا، اس قدر کٹھن تھا کہ اُسے اس کے آس پاس کی خبر نہیں تھی۔ وہ کسی کی جا گیر بننے کا سو چ بھی نہیں سکتی تھی ۔
کہیں ذرادم بھر لینے کو ر کی بھی تھی تو روح کی خالی جیب لئے کو ئی آجاتا کہ لمحے بھر کی محبت کے سکے اس میں انڈیل دو ۔مگر وہ تو مسا فر تھی ۔ آنکھو ں میں بلا کی کشش تھی قدیم داستا ن بو لتی ہو آنکھیں ۔ جسے ہر کو ئی پڑھنے اور ذرا بھر اس کو تکنے کو بے چین تھا۔ نہ ہی رنگت ایسی کہ سرخ و سپید رنگ اس کے آگے ما ند پڑ جا ئے ۔ نہ ہی نین و نقش میں بلا کا حسن ۔ مگر کچھ تو تھا ایسا جسے دیکھتے ہی لمحہ بھر کو آدمی لڑ کھڑا جائے ۔کچھ تو تھا ایسا کہ دوران سفر جس بستی سے گزرے وہا ں کے آزاد مکین اُس لمحے میں اسیر ہو جا ئیں ۔
مگر وہ بے نیا زی تھی اپنے حسن کو کو ئی معنی دینے پر رضا مند نہ تھی کبھی کو ئی بتا بھی دے تو وہ ایسی آگہی کومسکرا کر جھٹک دیتی اسکی منزل بے نشاں……….اسکی مسا فت لا مکا ن
اور وہ رواں دواں ………..بے ثبت قدمو ں کے نشا ں
مگر
وہ روا ں دوا ں ……….
قدیم تر سفر…………اور اک مہر گڑ ھ
پھر بن کر ………اک قدیم ،نئی منز ل کا مسا فر
وہ رواں دواں ……….
کبھی کو ئی چا ندنی کی دھو پ میں بھی جھلس جا تا اور اسے کہتا کہ ’’اری او پگلی کہیں جانا بھی ہے یا نہیں ؟
میں کہا ں تک اپنے خالی آسما ں میں تجھ جیسی چندا کو یوں لالا کر رکھتا ہو ں اور تو بالکل اس کنچے کی طر ح ہے جو بچہ کسی اسٹیل کی پلیٹ میں رکھ کر ہلاتا ، مگر اسے گر نے سے بچا نے کی جہد مسلسل میں خود بھی ہلنے لگ جا تا ۔ ایک زلزلے کی صورت میں ۔میں کب تک اپنے اندھیر وں کو تیر ے اجالے کی کہا نیا ں سنا سنا کر بہلا تا رہو ں اور اند ھیر ا آنکھیں پھا ڑ پھاڑ کر حیرت سے تکتے ہو ئے یہ داستان سنتا رہے ۔آخر کب تک؟۔تیرگی کے مکیں اندھیرے اجالو ں کے انتظار میں کالے لمحو ں میں رنگ بھرنے کے لیے قدیم سفر تک کرنے کو تیار ہیں۔ رنگ بھر کر لا نے کی مشقت بالکل ایسی ہے جیسے کہ دور دراز سے پانی لا نے کیلئے کوئی دوشیزہ اپنے ما تھے پر نرم کپڑے کی پٹی با ندھے اس پر مشکیزے کی رسی ٹکا کر دور تک کا سفر کر تی ہے ۔ با لکل اندھیرے ایسا ہی سفر اجا لے کی طرف کر تے ہیں‘‘ ۔
اور وہ ان سب با تو ں سے لا پر وا مہر گڑھ سے مہر گڑھ کا سفر یو ں کر رہی تھی جیسے کہ دریا کی اوپر ی سطح پر کوئی پتہ تیرتا ہو ا سکو ن سے لہر وں کے ساتھ چلتا ہو ا چلا جا رہا تھا ۔
اسے معلو م نہ تھا کہ معیارِ محبت اور انتخابِ محبت کیا ہے ؟
مگر سکو ن کی تلا ش اسے کہا ں سے کہا ں لے آئی ۔صر ف جسم کا پیراہن بدلا ، ورنہ اسے لگتا تھا کہ مہر گڑھ سے بھی قدیم ترکسی علاقے سے وہ آئی ہوئی ہے۔ اس کی روح متلاشی تھی پیاسی تھی ، سب جھیل کنا رے ، ندی ، دریا جو محبت سے لبریز ہے ان سب کو وہ چھو ڑتی ہو ئی سفر در سفر جو کہ پیش در پیش حالا ت کو سہتی ہو ئی چلی جا رہی تھی اور سو چتی کہ وہ آب محبت کہا ں سے ملے گاجسے ایک مشکیزے میں مشک کی صو رت بھر کر واپس اپنے مسکن چلی جا ؤں ۔
کبھی کبھی انسان کسی دوراہا پر آکر کھڑا ہوجاتا ہے۔ مگر اسے کوئی دوراہا بھی درپیش نہ تھا۔
اک جگہ ذرا سی دیر کوسستانے جو بیٹھی تو اس کے روح تک میں جھانکنے والی دو آنکھو ں نے اسے اسیر کر لیا۔ اس کے بجائے اسکی روح کو سہیلی بنانے میں اسکی روح تک کو تسخیر کر نے میں وہ کا میا ب ہو گیا ۔اسے یو ں لگاکہ جیسے قبل مسیح کے زمانے کی دور وحیں میل جول رہی ہیں تب سفر جو اک سکو ن کہ لہر کی ماندجاری تھا اس میں جل تھل اور جوار بھا ٹا کی سی صورت حال سی پیداہو گئی ۔
وہ اب اس نئی صورت حال سے نبرد آزما ہو کر اپنی روح کی سہیلی کیلئے جدو جہد کی پیاس بجھانے کو تگ ودو میں لگ گئی ۔
ایک ہی مقصد کا فر ما تھا کہ من میں کھلے سدا بہار پھو ل ان سب بستی والو ں کی ہتھیلی پر رکھ کر اپنی روح کی سہیلی لے لے، کسی کو دکھ نہ دے ۔
اسکی روح کی سہیلی اک اور مہر گڑ ھ کی با سی تھی اور مہر گڑھ سے مہر گڑ ھ کے درمیان عجیب ان دیکھی معاشرتی دیواریں حائل تھیں جو سماج ،رواج ،تہذیب و تمدن ،قوم زبان کے نا م سے جانی جاتی تھیں۔ جوبظاہر مہر گڑھ کی قدیم دیواروں سے بھی مضبو ط اور آہنی لگتی تھیں ۔
مگر اسے امید تھی کہ اک نہ اک دن اِن یہ حائل دیواروں کو پار کر کے اپنی منزل تک جا پہنچے گی۔ عجیب زبان کی بو لی بو لنے والے ۔دولت کے ترازومیں احساس کو تولنے والے ۔متلاشی نظروں میں ہو س بھرنے والے ۔جا نے کیسے کیسے با سی اس دنیا کے تھے ۔مگر وہ پر امید تھی۔ اس کے مشکیزے تک کو لفظو ں کے تیرو ں سے چھلنی کر دیا گیا مگر وہ روح کی سہیلی کے ہمراہ چلتی جا رہی تھی۔ دریافت کے پنچھی بھی اڑان بھرے ان کے ہمراہ تھے۔ اک نئی منزل ،اک جہدکی معراج ، اک جیت کا احساس۔ سفر در سفر۔ چو نکہ پیش در پیش اب مشکیزہ مشک آب سے قطرہ قطرہ کی صورت بھر رہاہے ۔مقصد ہار جیت کا کھیل نہیں ۔مقصد تو تھا دل اور روح کو جیتنے کا دوسروں کو ہمراہ لے کر چلنے کا ۔اک روح کا دوسری روح میں بس جا نا ایساہی ہے جیسے پھو ل میں خو شبوآکر جنم لیتی ہے۔ پھو ل سے نکل کر ہو اکی سہیلی بھی بن جا ئے مگراسکی شناخت اور نسبت اسی پھو ل کے ساتھ رہتی ہے ۔وہ بھی کسی نسبت اور شناخت کے ساتھ ان مہر گڑھوں کے درمیان رہنا چاہتی تھی۔ کبھی کبھی اسے لگتا کہ روح کی سہیلی نے محض اپنی تسکین کی خاطر اسے اپنے دل کا مکین بنایا مگر اسے تو جیسے جہاں مل گیا ۔جیسے جستجو کو حصو ل کا تمغہ مل گیا ۔
اس کے بعد کا سفر تو قدیم سفر ہی کہلاتا رہا ۔کیو نکہ سوچ خیال نئی راہیں بدل کر بھر اسی خیرو شر کی جنگ کے درمیان جاری و ساری رہے ۔
کہیں کہیں وہ خو دکو پہچان نہ پاتی مگر محبت کے جذبے اور مشکیزے میں مشک آب بھرنے کے مرا حل میں تھکن کے با وجو د وہ رواں دواں رہی۔
اک حیرت کن با ت یہ رہی کہ سفر رکا ہی نہیں ۔
روح کی سہیلی کے ہاں اپنا مسکن بنانے کے با وجو د روح کا سفر، جستجو کا سفرر کا نہیں کبھی کبھی اس کی شخصیت میں پرا سراریت دیکھ کر روح کی سہیلی اسے پہیلی بھی قرار دیتی ۔
ایک دن اچانک وہ کھو گئی ۔ دکھ کے کنکرکی وجہ سے جھو لی بھر گئی ۔ اور ہو ا کے چلنے سے مشکیزے سے مشک آب چلی گئی۔ ہو ا بھی توہوانہیں آندھی و طوفا ن تھی۔ خالی مشکیزے کو لے کر اس نے مہر گڑھ میں جگہ جگہ گل و گواڑخ کھلانے کے بعد اسے حساس ہو ا کہ خوشبو کا رشتہ گل کے ہمر اہ ہی بھلا لگتا ہے اسے کسی مشکیزے میں بھر نے کی ضرورت نہیں ۔رو ح کی سہیلی اب تنہا نہیں اس کے چا روں جانب گل وگو اڑخ کھل رہے ہیں اب وہا ں کو ئی دوشیزہ طو یل سفر کر کے قدیم گیت گا تے ہو ئے مشکیزے نہیں بھر تی ۔سب کی آس و پیاس ان کی دہلیزو ں پر ہی پوری ہو جا تی ہے ۔
اپنی ذات میں گم، اپنی دولت کی پجاری بننے سے مقصد زندگی کا سفر رائیگا ں لگتا ہے ۔
اب اسے اطمینان تھا کہ سفر درسفر جوکہ پیش پیش آرہا تھا وہ رائیگاں نہیں گیا ۔
اب بھی قدیم مہر گڑھ سے مہر گڑھ تک کبھی کبھی رات کے سمے جب کا ئنات خامو شی کی چادر اوڑھے ہوئے ہو ئی ۔جب گواڑخ کے کھلتے پھو لو ں کی باس مشک آب کی صورت ، کبھی بادلو ں سے اور کبھی ہوا میں رچی ہو ئی سانسو ں کی خو شبو ں کی طر ح محسو س ہو تی ۔
اور کبھی سکو ت کے لمحو ں میں اچانک اس کی پائل کی جھنکارکی آواز خامو شی کا سکو ت تو ڑدیتی تب یوں لگتا کہ وہ یہیں ہے ۔
یہیں کہیں ہے !!
میں مہر گڑھ ہوں مہر گڑھ کا با سی !!!