(پیدائش 9 ستمبر 1929)
ہما ری یہ محسن اگر طبقا تی سما ج کی بنا ئی انسا نی سر حد وں کو روند کر پو ری انسا نیت کو آغو ش میں نہ لیتی تو ہم اُسے جر منی کاکہتے۔مگر جنونیوں کا کیا ملک کیا وطن۔دنیاوی عینک سے ،لانزگ اُس کے شہر کا نام ہے ۔وہ 9 اگست 2016 کو 85 سا ل گیا رہ ما ہ کی ہو جا ئے گی ۔
اس نے 30 برس کی عمرمیں پاکستان میں لپروسی یعنی کوڑھ کے مریضوں کے بارے میں ایک فلم دیکھی تھی۔لپروسی ایک مہیب، بہت تکلیف دہ اور خوفناک بیماری ہے۔یہ تڑپا نے سسکا نے والی بیما ری ہو تی ہے۔اس سے جسم میں پیپ پڑجا تا ہے۔اور انسا ن کا گو شت ٹو ٹ ٹوٹ کر نیچے گر نے لگتا ہے۔کو ڑھی کے جسم سے بہت بد بو آتی ہے ۔آبا دی میں مشہور ہو تا ہے کہ ان مریضوں کو اُن کی کر دہ و نا کر دہ مہیب گنا ہوں کی سزامل رہی ہے۔وہ اسے متعد ی مریض سمجھتے ہیں لہذا ایسے مر یضوں کو اُن کے اپنے عزیز و قر یب شہر ی آبا دی سے دور سسک سسک کر جا ن دینے کے لیے پھینک آتے ۔وہیں اُن کی روٹی پانی بھی دور ہی سے پھینک دی جاتی۔ اسے ایک لاعلاج بیماری قرار دیا گیا تھا۔
1949 میں اس نے طب پڑھا اوروہ ڈاکٹر بنی۔یہ ڈاکٹر ایک مسیحی ادارے سے وابستہ ہوگئی۔یوں وہ پیسہ اور شہر ت والی لا ئن پہ نہ گئی بلکہ اس نے انسا نیت کی خد مت کے لیے خو د کو وقف کر نے کا فیصلہ کر لیا۔گو کہ ایسا فیصلہ کر نا بھی بہت خو بصورت کا م ہے مگر اُس فیصلے پر بقیہ پو ری زند گی گز ار دینا اہم تربا ت ہے۔
ڈاکٹر رتھ فاؤ 1960 میں پا کستا ن آگئی ۔ اس نے یہا ں اپنی بقیہ زندگی کو ڑھ (Leprosy) نا می بیما ری سے لڑنے کا فیصلہ کیا۔ غر یب غر با کا یہ مر ض کر اچی کے غر یب علا قوں، گو ادر، پسنی اور جیوانی کے علا قو ں میں موجو د تھا۔
خوبصورت بدن و چہرہ اور انتہائی حسین دل و دماغ والی متبرک انسان نے زندگی کی آس پاس والی، اورقابلِ رسائی خوبصورتیوں کو منہ نہ لگایا اور کراہت بھری بدصورتی کو گلے لگایا۔۔۔۔۔۔ کوڑھی مریض کو ۔
ایسا عشق کیا کہ اپنا خاندان ، ملک، جوانی اور زندگی اس پر قربان کردی۔
یہ جرمن لڑکی عین جو انی میں گھر ،خاند ان اور وطن ،حتیٰ کہ بر ا عظم چھو ڑکر پا کستا ن آتی ہے اور زند گی بھر اس انسا ن دشمن بلا کے ساتھ لڑنے کا عزم کر تی ہے۔ اس نے کر اچی کی ایک غریب آبا دی میں ایک جھوپنڑی سے کا م شروع کیا۔ اس نے ان مستر د کر دہ لو گو ں کو اپنا بنایا۔وہ گنا ہ ثواب ،جن بھوت نظرِبد اور تعویذ گنڈے کے تصورات کی بجا ئے اُسے ایک بیما ری سمجھ کر اس سے لڑ پڑتی ہے۔
وہ اپنے ہا تھ سے مر یضوں کو دوا پلا تی تھی ،ان کی مر ہم پٹی کر تی تھی ۔نہ وطن کی یا دکو ئی بہا نہ بنتی ہے،نہ ما ں باپ کی جد ائی کا احسا س اُس کے ایما ن کو کمزور کر تی ہے۔اور نہ ہی خاوند شا دی کر کے خا ند ان بنانے کی انسا نی خو اہش اُسے اس بڑے کا م سے روکتی ہے۔یہ ملا ئک اِن سا ری انسا نی خواہشات اور حقوق سے دستبر دار ہو کر مظلوم ترین انسا نو ں کی مسیحا ئیت میں جت جا تی ہے۔ چند ہ کر تی ہے یہاں ،پیسہ اکٹھی کر تا ہے جرمنی سے اور گز شتہ پچاس برس اس دیو ہیکل بیما ری سے لڑائی میں لگا ئی ہے ۔اپنے سا تھ ڈاکٹر وں ،پیرا میڈیکل سٹاف اور سما جی ورکر وں کی ایک وسیع اور منظم و مصمم ٹیم بناتی ہے ۔انھیں تربیت دیتی ہے۔
وہ لوگوں کا علا ج کر تی ہے۔شفاپا نے والو ں کو ذہنی اور شعوری طور پر اتنا بلند کر تی ہے وہ گلیوں میں بھیک مانگنے کی بجا ئے اُسی کی ٹیم کا حصہ بن جا تے ہیں اور دوسرے کو ڑھی مریضوں کا علا ج کر نے میں لگ جا تے ہیں ۔
وہ یہا ں لپروسی سنٹر بناتی گئی۔کل 156 سنٹر زبنے ۔اُس نے ساٹھ ہز ار سے زائد مر یضوں کوزند گی عطاکردی۔
یہ مر یض تند رست ہو کر عام انسانوں ہی کی طر ح زند گی گز ارنے لگے ۔
یوں بلوچ علا قوں سے یہ مر ض ختم ہو ا اور ڈبلیو ایچ اونے1996 میں اس ملک کو ’’لپرسی کنڑولڈملک‘‘ قراردیا ۔ایشیا کا اولین ملک جس میں یہ کنٹرول ہو ا ۔
سال2000 میں ڈاکٹر رتھ نے نیشنل لیپروسی کنٹرول پر وگرام شروع کیا جس میں لپروسی کے علاوہ ٹی بی کا بھی علاج ہوتا ہے۔
پارے کی طرح متحرک ڈاکٹر روتھ اس ملک کے ہر اُس شہری کی محسن ہے جو کوڑھ کا مریض تھا یا جس کا کوئی عزیز رشتے دار اس موذی مرض میں مبتلا تھا یا جو اس موذی مرض کا شکار ہوسکتا تھا۔وہ ہم صحت کے شعبہ سے وابستہ لوگوں کی محسن ہے جس نے ہمارے لیے فرض ، کمٹ منٹ اور استقلال کی بے نظیر مثال قائم کردی۔وہ ہر اچھے انسان کی محسن ہے جنہیں اس نے اپنے ساتھ کام کرنے، اپنے تذکرہ کرنے، اپنا تذکرہ لکھنے اورپڑھنے کا موقع فراہم کردیا۔