(اقتباسات)
ذاتی ملکیت کے تقدس کے تصور پر قائم سماج میں عورت کی حیثیت کیا ہے ؟؟ ذاتی ملکیت۔۔۔.بورژوا مغربی معاشروں میں لبرل ازم کے پرفریب اور میک اپ زدہ نظریات کی آڑ میں عورت کی آزادی کے نعرے تلے نسوانیت بیچی اور خریدی جاتی ہے جبکہ مشرق کے جاگیرداری و قبائلی معاشروں میں غیرت اور عفت و عصمت کے کھوکھلے نظریات کے بل پر یہ کاروبار جاری ہے۔۔۔.
مشرق کا حصہ ہونے کے باعث بلوچ سماج بھی اس لعنت سے پاک نہیں۔۔۔بلوچی کلاسیکل شاعری کی رو سے قدیم بلوچ سماج آج کی نسبت عورت دشمنی کے معاملے میں تھوڑا بہتر تھا۔۔۔
ھانی , جہاں شے مرید کی گم گشتہ محبوبہ تھی وہاں وہ ایک مدبر , مشیر جنگ اور سیاسی رہنما کے روپ میں بھی نظر آتی ہے , سردار چاکر کی بہن , بانڑی , بھی ایک ایسا ہی نسوانی کردار ہے جسے آج بھی ایک اساطیری کردار سمجھا جاتا ہے۔۔۔بلوچی کلاسیک شاعری سے مھناز و گراناز کا بھی پتہ ملتا ہے۔۔۔.مھناز جس نے مردانہ غرور کے قلعے پر نسوانی حملہ کرکے شھداد کی "مردانگی” کے بت کو پاش پاش کردیا اور گراناز نے میدان جنگ سے پیٹھ دکھا کر بھاگنے کا قصہ سن کر اپنے شوہر لَلّھ کو ٹھکرادیا۔۔۔
کلاسیک دور گوکہ آئیڈیل نہ تھا , وہ ایک فیوڈل سماج تھا جس میں فیوڈل ازم کی تمام خامیاں اور سفاکیاں موجود تھیں مگر بہر کیف وہ نوری نصیر خان کی سلطنت شاہانہ سے بدرجہا بہتر تھا جس نے عورت دشمنی کی پہلی اینٹ رکھی اور بعد ازاں اس پر پوری عمارت تعمیر کردی گئی۔۔۔
بلوچ سماج میں عورت کی حیثیت عضو معطل کی سی ہے۔۔۔وہ صرف و محض مرد کا سایہ ہے۔۔۔سایہ بننے کا شرف بھی فیوڈل خاندان کی ملک زادی کو حاصل ہے نہ کہ عام بلوچ کو , عام عورت کا سایہ بھی جنس حرام ہے۔۔۔
سرداروں نے اسمبلی میں عددی اکثریت قائم رکھنے کیلئے کبھی کسی پروین مگسی کو اسمبلی میں بھیجا تو کبھی کوئی فضیلہ عالیانی بن کر آئی۔۔۔پاکستانی حکمرانوں کی ضرورت بن کر کبھی کسی "زبیدہ جلال” کا بھی نام چمکا۔۔۔قوم پرست , جو خود کو ترقی پسندی اور سوشلزم کا داعی کہتے نہیں تھکتے ان کی صفوں میں بھی عورت شجر ممنوعہ رہی۔۔۔.
بلوچ عورت کبھی "کاری” کا نام پاکر مرد کی مونچھوں کو تاؤ دینے کا سبب بنی کبھی کوئی سردار ان کو زندہ درگور کرنے کو بلوچ روایت منوانے پر مصر رہا۔۔۔بلوچ سماج میں عورت کی عزت اور توقیر کی بیہودہ کہانیوں میں ہمیشہ یہ دکھایا جاتا ہے کہ عورت , کم عقل , سازشی , حاسد اور عشق باز ہوتی ہے سو حاصل کلام یہ کر مرد اس کو "باندھ” کر رکھے۔۔۔
بلوچ تاریخ کے حالیہ تندو تیز لہر نے جدلیاتی انداز میں سماج کے فرسودہ اقدار و روایات کو بھی دعوت مبارزت دی ہے۔۔۔.صدیوں سے قائم سماج کو سالوں میں بدلنا ممکن نہیں تاوقتیکہ معروضی حالات ایک انقلابی جست کی دہلیز پر نہ پہنچ جائیں اور بلاشبہ اس فیصلہ کن انقلابی جست سے ہم ھنوز دور ہیں۔۔۔البتہ توڑپھوڑ کا جو عمل شروع ہوچکا ہے اس کے مثبت و منفی پہلوؤں سے قطع نظر وہ خوش آئند ہے۔۔۔طرز کہن پر اڑنے والی قوتوں کا راج تاحال برقرار ہے اور آئین نو کے حامی ہنوز گم کردہ راہ , اسلیے سفر طویل ہے۔۔۔
اس لہر نے بلوچ عورت کیلئے بے پناہ مواقع پیدا کئے ہیں , بازیافت , خودشناسی اور اپنی نسوانیت کو منوانے کا راستہ فراہم کردیا ہے۔۔۔دور حاضر کی گراناز و مھناز نے اس موقع کو استعمال کرنے میں کسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا , یہی دیکھ کر امید کا دامن ہاتھ سے چھوٹتا نہیں ہے۔۔۔
عندلیب , شکر بی بی , فرزانہ مجید , کریمہ سمیت متعدد خواتین نے۔۔۔… عام اور گھریلو خواتین نے میدان عمل میں آکر خود کو ثابت کیا اور منوایا۔۔۔.عندلیب گچکی آج بلوچی افسانہ نگاری کے میدان میں سرگرم ہیں , فرزانہ مجید نے کوئٹہ اسلام آباد براستہ کراچی لانگ مارچ کرکے ایک نئی تاریخ رقم کی۔۔۔..
کریمہ , بلوچ سیاست کی اولین خاتون رہنما , ایک روایت شکن اور نئے عہد کی بازگشت بن کر سامنے آئی۔۔۔.
جب ضیاالحق نے عورت کی بے توقیری کو آئین کا حصہ بناکر ملاؤں کے ذریعے سماج کی رگ رگ میں پھیلاناشروع کیاتھا۔۔۔آدھی گواہی , وراثت سے محرومی , نامحرم و محرم کا ٹنٹنہ , حدود آرڈیننس کے قصے۔۔۔.ضیاالحق نام کی یہ بیماری آج تک لاحق ہے۔۔۔.

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے