وہ اپنی ٹائی درست کرتے ہوئے کھڑوس باس کے کمرے کی جانب بڑھا.آخری رپورٹ میں تو کسی غلطی کی گنجائش ہی پیدا نہیں ہوتی وہ میں نے خاصی عرق ریزی سے تیار کی تھی.پچھلے پندرہ دنوں میں کوئی چھٹی بھی نہیں کی… ہاں! دو دفعہ آفس سے ذرا جلدی نکلا تھا.وہ سوچ کے دائرے میں ڈوبتا ابھرتا کمرے میں داخل ہوا۔.”سر میں آئی کم اِن” جھجکی ہوئی آواز نے کمرے کے خنک ماحول میں ارتعاش پیدا کیا۔.”آؤ بر خورداد آؤ ” باس کی گرمجوشی دیکھ کر اس نے داہنی جانب لگی کھڑکی سے باہر دیکھ کر تصدیق کی کہ آیا سورج مشرق سے ہی نکلا ہے.وہ باس کے ہاتھ کے اشارے کے تابع کرسی پر بیٹھ گیا. "نوجوان تم نے تو کمال کر دیا۔ ایسی شاندار رپورٹ تیار کی کہ میرا جی خوش ہوگیا.میں تمہارے لئے وہی جذبات رکھتا ہوں جو ایک ننھے سے بچے کے اپنے کھلونے کے لئے ہوتے ہیں۔ لہٰذا اب تمہارے پاس صرف دو صورتیں ہیں یا تو میری بیٹی سے شادی کر لو اور اس فرم کو اپنے زرخیز دماغ سے بامِ عروج تک پہنچاؤ یا پھر تمہیں اس نوکری کو لال کاغذ کے ساتھ خیرباد کہنا پڑے گا۔ لال کاغذ سمجھتے ہو؟ لال کاغذ میری ڈکشنری میں وہ برطرفی ہے جس کے ساتھ تمہاری ناقص کارکردگی کی ایسی رپورٹ ہو کہ تمہیں عمر بھر کہیں اور نوکری نہ ملے۔’’ اظہر جس کی نظریں باس سے ہٹ ہٹ کر انکی کرسی کی پشت پہ ترچھی کھڑی انکی بیٹی عنیزہ کے بالوں پہ پھسل رہی تھی.وہ ششد رہ گیا. قسمت اس پر کبھی ایسے بھی مہربان ہوگی اسے اندازہ ہی نہیں تھا۔ چھپڑ پھاڑ کر زبردستی سر پہ آن پڑنا کسے کہتے ہیں اسے آج سمجھ آئی.اس کی صم بکم عمی کیفیت دیکھ کر باس اپنے پرانے لبادے میں واپس آیا.”تمہارا یہ فرم چھوڑنے کا ارادہ ہے یا گھر بسانے کا؟ ” خاصے کرخت لہجے میں سوال کیا گیا .اظہر نے سیدھا جا کر باس کا سخت ہاتھ تھاما اور آنکھوں سے لگا لیا۔ "پاپا یہ تو میرے لئے بہت فخر کی بات ہوگی کہ میرا رشتہ آپ سے جڑ جائے ” اس نے فوراً نئے رشتے کے حوالے سے نیا نام دیا۔ "مجھے تم سے یہی امید تھی رشتہ طے ہو ہی گیا ہے تو میری طرف سے تحفہ بھی رکھ لو. نیچے بی.ایم.ڈبلیو کھڑی ہے یہ اس کی چابی” باس نے بتیس دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے چابیاں اظہر کو دی.
"ڈیڈی رشتہ میرا طے ہوا ہے اور راز و نیاز آپ کر رہے ہیں۔ اگر اب آپکی طبیعت پہ گراں نہ گزرے تو میں اپنے ہونے والے شوہر کے ساتھ لنچ پہ جاؤں؟” عنیزہ نے داہنے ہاتھ کی انگلی کے ناخن سے گال کو سہلاتے ہوئے کہا.یہ بھی حسن کی ایک ادا ہے اور اب نجانے کتنی ادائیں مجھ پہ بجلیاں گرائیں گی اظہر نے یہ سوچا ۔ساتھ ہی اسے احساس ہوا کہ باس کو پاپا کہہ کر اپنا معیار بڑھانے کی کوشش پہ لفظ ڈیڈی نے بْری طرح پانی پھیر دیا ہے.اس نے کان کھجائے.باس بھی کھسیانی ہنسی ہنس رہا تھا.بیٹی نے فوراً اپنی پرائیویسی کی سرخ جھنڈی جو دکھا دی .عنیزہ اپنی بات کہہ کر رکی نہیں .دروازے کے پاس جا کر اسے تاحال براجمان اظہر کی وجہ سے مڑنا پڑا "اظہر جی ۔۔۔آپ آئیں ناں”۔ اظہر کو لگا وہ بے ہوش ہی ہو جائے گا ۔کہاں تو یہ باپ کو بھی لفٹ کروانے والی نہیں اور کہاں اظہر کے لئے آنکھوں میں دنیا بھر کا پیار سموئے انتظار کرتی نظر آرہی تھی اور اظہر کے نام کے ساتھ جی کا لاحقہ۔۔۔. آہا ۔۔۔اچھا!!!!! تو یہ قصہ ہے۔ بیٹی مجھے دل دے بیٹھی ہے اور باپ اب اسے ارینج میرج کی شکل دینے کی کوشش کر رہا ہے.خود اعتمادی کا پرندہ کہیں دور سے اڑ کر اظہر کے جسم میں حلول کر گیا. اس نے تمسخرانہ انداز میں باس کو دیکھا اور فاتحانہ چال سے دروازے کے پاس پہنچ گیا.ایک خوشگوار سی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پہ کھلنے لگی.یہ وہ لڑکی تھی جو دفتر میں آتی تو کوئی نظر بچا کر بھی دیکھنے کی کوشش نہ کرتا.اس کا نخرہ اور انداز دوسروں کو تنبیہہ کرنے کے لئے کافی تھے. وہ دونوں آہستہ آہستہ چلتے باہر آگئے. سورج بادلوں میں چھپ چکا تھا.ٹھنڈی ہوائیں طیبہ کے بالوں کو اظہر کی پلکوں تک اچھالتی جارہی تھیں.اظہر کو احساس ہوا کہ اپنی ادھوری زندگی میں جس چیز کی کمی اس نے آج تک محسوس کی وہ صرف عنیزہ کے وجود کی تھی.اس کے وجود سے اٹھتی مہک اظہر کی سانسوں کو مدہوش کرنے کے لئے کافی تھی.سامنے لش پش کھڑی بی.ایم. ڈبلیو نے اسے حقیقی زندگی میں لا پھینکا.دارالامان میں بڑھا پڑھا شخص ایسی گاڑی کے خواب دیکھنے سے پہلے بھی سوچا کرتا ہے.واہ رے تیری قسمت. سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کس چیز پہ پہلے عش عش کرے۔ اس نے آگے بڑھ کر عنیزہ کے لئے دروازہ کھولا .اندر بیٹھتے ہی عنیزہ کی جلترنگ آواز کانوں میں گونجی "میں نے بنی گالہ جانا ہے” وہ اگر خلائی جہاز میں بیٹھا ہوتا تو پریوں کی شہزادی کو چاند پہ لے جاتا اور اْڑن کھٹولے پہ بیٹھا ہوتا تو چاند سی لڑکی کو پرستا ن لے جاتا ۔لیکن اب شہزادی نے منزل بتا کر مشکل آسان کردی تھی۔ کیونکہ وہ کبھی بھی فیصلہ نہ کر پاتا کہ اپنے دل پر اچانک قبضہ کرنے والی رانی کو کہاں لے کر جائے.وہ اتنا پر اعتماد تھا کہ گاڑی چلاتے اسے ایک لمحے کو بھی اپنی پھٹیچر موٹر سائیکل یاد نہ آئی جسے وہ گھنٹہ دوڑاتا تو وہ دو گھنٹے سانس لینے کو رک جاتی.گاڑی میں جواد احمد کی آواز میں بن تیرے کیا ہے جینا۔۔۔. گونج رہا تھا.اظہر کی خوشی کا اندازہ اس کے چلتی گاڑی میں تھرکتے پاؤں سے لگایا جاسکتا تھا.گاڑی بنی گالہ کی پارکنگ میں رکی.
پتھروں پہ چلتے ہوئے کتنی ہی دفعہ عنیزہ ڈگمگائی اور اس نے اظہر کے بازوؤں کا سہارا لیا. بالاخر اظہر نے اپنا مضبوط ہاتھ اس کے سامنے کیا.عنیزہ ذرا نہ ہچکچائی فوراً تھام لیا. اب وہ پانی کے پاس کھڑے تھے.پانی کے کنارے پہ خودرو پودوں کی قطار اور ان پہ سنہرے پھولوں کی بہار نے فضا کو رنگین بنا دیا.اطراف میں لگے پیڑو ں کاٹھنڈا سایہ اظہر کو بتانے لگا کہ فانی دنیا ختم ہو چکی اور اب وہ جنت میں ہے ۔حور پہلو میں کھڑی اس پہ فریفتہ ہے.اچانک عنیزہ نے اپنی بانہیں اظہر کے گلے کا ہار بنائیں ہرنی کی رنگت جیسی چمکتی آنکھیں اظہر کے سیاہ بالوں کی بلائیں لے رہی تھیں۔ اسے لگا وہ اس دنیا کا خوش قسمت ترین انسان ہے۔”تمہیں پتہ ہے اظہر مجھے تم سے محبت کیوں ہوئی؟جاننا چاہتے ہو کہ کب تمہیں دیکھ لینا میرے لئے مقصدِحیات بن گیا؟ کب تمہارے شانوں پہ جھولنے کی خواہش میں میرے قدم لڑ کھڑانے لگے؟ "۔ مدھر لہجہ محبت کا اعتراف کرنے کے لئے تھرک رہا تھا.گالوں پہ حیا نے غازہ بکھیر دیا.آنکھیں آنکھوں سے چار تھیں لیکن پلکیں محبوب کی مرتکز نگاہوں سے لرزنے لگیں .اظہر کا سارا جسم سننے کو بے چین ہوا.دل میں گدگدی سی محسوس ہوئی. اس کی آنکھوں میں بے قراری نے سانس لینا شروع کردی۔۔۔۔۔۔..سانس تیز ہوا۔۔۔..سانس مزید تیز ہوا.
ٹرن ٹرن ٹرن ٹرن ٹرن ٹرن۔۔۔۔۔۔. گھڑی ہل ہل کر صبح کے نو بج جانے کا شور مچا رہی تھی.

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے