اقتباسات
وہ پیدا تو دبئی میں ہوئی مگر شاید وطن کی مٹی کی کشش کا مقابلہ نہ کرسکی اسلیے جب ہوش سنبھالا تو خود کو بلوچستان میں پایا۔۔۔.تمپ , پنّو کے کیچ مکران کا حصہ ، اس کا آبائی گھر ہے۔۔۔بے آب و گیاہ پتھریلی سرزمین اور سنگلاخ چٹانوں میں گھری یہ چھوٹی سی بستی جہاں بقول ہمارے لافانی شاعر عطا شاد کے "رات خاموش ہو تو بہتا ہوا پانی بولے” کریمہ کے لیے پوری کائنات بن گئی۔۔۔یہ کائنات کنویں کے مینڈک جیسی کائنات نہ تھی , یہاں فدا بلوچ جیسے سوشلسٹ طالب علم لیڈر کا اثر تھا , یہ ضیاالحق کے دربار میں جرم بغاوت پر پھانسی کا پھندہ چومنے والے حمید بلوچ کے نظریاتی جانشینوں کا مسکن تھا۔۔۔سو ، کریمہ نے انقلاب و نظریات کی گود میں پرورش پائی۔۔۔.
اس کا گھر , جہاں ایک دادی کہانیاں سناتی تھی , جدوجہد کی کہانیاں , ظلم و تشدد مخالف کہانیاں , وہ گھر جہاں , صبح و شام سیاست اور سیاسی نظریات پر بحث ہوتی تھی , ننھی سی کریمہ کی سمجھ میں وہ بحثیں تو نہ آتیں مگر دادی کی داستانوں کو ملا کر وہ سمجھ چکی تھیں کہ وہ شب گزیدہ سحر کا نوحہ ہیں اور انقلاب اس سحر کا راستہ۔
سکول کی زندگی میں ہی اس نے اپنا راستہ چن لیا , کانٹوں بھرا راستہ , وہ راستہ جو دادی کی کہانیوں میں شہزادی ظالم بادشاہ کیخلاف اختیار کرتی تھی۔۔۔یہ ایک لاشعوری فیصلہ تھا , معروض سے متاثر فیصلہ , مگر وقت نے جب شعور کے دروازے پر دستک دی تو اس نے شعور کو ذاتی خوشحالی و ذاتی مفاد پر قربان کرنے کی بجائے اسلاف کا راستہ ہی منتخب کیا۔۔۔.
یہ واقعہ ہوا 2006 کو۔۔۔..
12 اکتوبر 1999 جمہوریت میں انٹرویل کا اعلان ہوا،پرویز مشرف تبدیلی کا اشتہار بن کر سامنے آیا۔۔۔مشرق کی بیٹی اور آج کی شہیدِ جمہوریت بینظیر بھٹو نے انگریزی زدہ اردو میں اس انٹرویل کا خیرمقدم کیا , لندن نشین "نقیب انقلاب” الطاف حسین نے بغلیں بجائیں , تبدیلی کے پرستار عمران خان اور دیگر نے دیدہ و دل فرش راہ کئے۔
مکران کا قبائلی و زات پات میں بٹا سماج , ملائیت زدہ سماج , کافی تلملایا۔۔۔رہی سہی کسر ارب پتی متوسط طبقے نے پوری کردی یعنی ایک نہتی عورت سے پورا معاشرہ خائف تھا۔۔۔.
سیاست میں کریمہ بلوچ کا ظہور ایک خوشگوار اضافہ ثابت ہوا مگر چونکہ یہ معاشرہ غلاظت اور بدبودار قے میں پلتا ہوا ایک گلا سڑا سماج ہے اس لیے کریمہ کو روکنے میں کامیابی نہ پاکر اس کی نسوانیت کو نشانہ بنانے کی قابل نفرت کوشش کی گئی۔۔۔.افسوس , اس میں دوست و دشمن سب شامل رہے۔۔۔.
اس نے تمام فضولیات کا ڈٹ کر سامنا کیا بلکہ شاید وہ سرخرو ہوکر نکلیں۔۔۔اس کے بقول "جس سماج سے میرا تعلق ہے وہ ایک پسماندہ اور سیاسی شعور سے عاری معاشرہ ہے اور سماج کی رہنمائی اور تربیت کی ذمہ داری سیاسی جماعتوں کی ہے ۔چونکہ میرا تعلق ایک سیاسی جماعت سے ہے اسلیے میرا گلہ کرنا فضول ہوگا کیونکہ پھر یہ شکایت تو مجھے خود سے کرنی ہوگی , آخر سماج کو بدلنا تو میری ذمہ داری ہے”۔۔۔.
وہ سمجھتی ہے کہ معاشرے میں موجود تاریکی کی قوتوں سے لڑنا میرا مقصد ہے اس کی موجودگی پر رونا دھونا کوئی معنی نہیں رکھتا۔۔۔.
اس نظریے کے تحت وہ تاحال سیاست میں سرگرم ہے۔۔۔.وہ عورت کی غلامی اور اس کی پسماندگی کو قبائلی نظام اور ملک کی نوآبادیاتی سسٹم سے جوڑتی ہے۔ اس کے مطابق موجودہ قبائلی نظام انگریز کے نوآبادیاتی عہد کے سانچے سے ڈھل کر نکلا ہے اس لیے اس نظام کی شکست و ریخت لازمی ہے اور دوسری جانب چونکہ اس نظام کو آکسیجن فیڈریشن مہیا کررہا ہے سو من حیث القوم اس سے دو دو ہاتھ کرنا لازمی ہے۔۔۔گویا وہ دو محازوں پر لڑرہی ہے، سردار اور سرکار دونوں کیخلاف۔۔۔
پاکستان میں کسی عورت کا سیاست میں حصہ لینا یوں بھی طوفان کو دعوت دینے کے مترادف ہے ۔اگر عورت بلوچ ہو تو یہ طوفان محض طوفان نہیں بلکہ سونامی بن جاتی ہے۔۔۔کریمہ کا سامنا بھی سونامی سے ہے۔۔۔ جلتے گھروں , مسمار مکانوں , غلام بنائی گئیں عورتوں کی نمائندہ بن کر حکمران قوت سے ٹکرانا پل صراط پر چلنے کے مترادف ہے۔۔۔اس راستے پر اس نے سینکڑوں رفیقوں کے مسکراتے چہروں کو معدوم ہوتے دیکھا , کچھ کو ہمیشہ کیلئے لاپتہ پایا، ان گنت کوبے توقیری کے مراحل سے گزرتا دیکھا , درجنوں سیاسی دوستوں کی طوطا چشمی کا ملاحظہ کیا , خود بھی ڈنڈوں کا سامنا کیا۔۔۔.حوصلہ نہ ٹوٹا تو ایف آئی آر درج کی گئی ۔
اس ایف آئی آر نے تاہم ان کو محتاط بنادیا , جوش پر ہوش نے پہرے ڈال دیے , تعلیمی زندگی درہم برہم ہوگئی جس کا دکھ غالباً اسے عمر بھر رہے گا۔۔۔
جہاں جوش پر ہوش غالب آیا وہاں گرفتاری کا خطرہ بھی آسیب بن کر چمٹ گیا۔۔۔وہ جانتی تھی کہ گرفتاری کا مطلب کیا ہے , وہ گرفتاری کے نتائج و عواقب سے مکمل آگاہ تھی۔۔۔اس کے باوجود ان کے پائے استقامت میں لغزش نہ آئی۔۔۔.
عوام سمیت اس کے نظریاتی ساتھیوں پر اس وقت حیرت کے پہاڑ ٹوٹے جب کریمہ نے اپنے لیڈر کی گرفتاری کیخلاف کراچی پریس کلب کے سامنے احتجاجی کیمپ میں سر اٹھا کر اس کی تفصیلات بیان کیں۔۔۔
پھر اسے تنظیم کی چیئر پرسن کے عہدے کیلئے منتخب کیا گیا،معلوم بلوچ تاریخ میں یہ اپنی نوعیت کا منفرد واقعہ ہے کہ ایک عورت جہد مسلسل اور محنت کے بعد ایک تنظیم کی سربراہ منتخب ہوئی۔۔۔..یہ نہ صرف کریمہ بلکہ پوری قوم کیلئے بھی کسی اعزاز اور فخر سے کم نہیں اور آزادی نسواں کے میک اپ زدہ علمبرداروں کے منہ پر طمانچہ جو عورت کی آزادی کو سماج کی آزادی سے الگ تصور کرتے ہیں , جو عورت کیخلاف , عورت کی زبان میں سازش کرتے ہیں۔۔۔
کریمہ کی سربراہی ہر چند کوئی بڑی کامیابی نہیں , مگر طاغوتی طاقتوں کیخلاف خاک نشینوں کی یہ ایک اہم کامیابی ہے , ایک امید کا ستارہ۔۔۔۔