ہمارے معاشرے میں عورت کی زندگی جس طرح بے حسی اور لاچاری کا شکار ہے۔اس کی مثال دوسرے معاشروں میں نہیں ملتی۔ہمارے معاشرے میں عورت کی زندگی جانوروں کی طرح ہے۔شاید جانوروں کی زندگی بہتر ہے کیونکہ جانور کو عورت سے زیادہ آزادی حاصل ہے۔لیکن عورت اس سے محروم ہے۔
ہمارے معاشرے میں عورت کوپیدائش سے لے کرموت تک قربانی کا بکرا بنایا جاتا ہے۔جب کسی کے ہاں لڑکے کے بجائے لڑکی پیدا ہوتی ہے تو لوگ یہی کہیں گے کہ لڑکی کے بدلے بچہ پیدا ہی نہیں ہونی چاہیے تھا۔مرجاتا تو اور اچھا ہوجاتا۔عورت کے حوالے سے ہمارے معاشرے کے خیالات یہی ہیں۔ عورت کو پیدائش سے لے کر بڑھاپے تک گھر میں قید کردیا جاتا ہے۔نہ اسے اچھی طرح پڑھنے کی اجازت دی جاتی ہے۔نہ گھر سے باہر نوکری کرنے کی۔اورنہ ہی اسے اپنی زندگی کی فیصلے کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔ جب وہ 14یا 15سال کی عمر میں پہنچ جاتی ہے تو اس کے گھر والے اس کی مرضی پوچھے بغیر اس کا رشتہ طے کردیتے ہیں۔ رشتہ طے کرنے کے حوالے سے نہ اس سے پوچھتے ہیں نہ ہی اس کو اپنی مرضی کا رشتہ طے ہونے دیتے ہیں۔عورت کو محبت کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔عورت پیار اور محبت کو بے حیائی اور بے شرمی یااپنے خاندان کی عزت و غیرت کامسئلہ قرار دے کر اس کو دبا دیا جاتاہے۔یہاں پیار اور محبت صرف مرد کیلئے ہے ۔عورت کو اس چیز سے محروم کردیا جاتا ہے۔عورت کیلئے یہ حرام ہے۔
جب لڑکوں کی باری آتی ہے تو کسی کو یہ ہمت نہیں کہ اپنے لڑکوں کا رشتہ ان کی مرضی کے بغیر طے کردیں۔لڑکوں کی محبت کو مردانگی اور لڑکیوں کی محبت کو بے حیائی و بے شرمی کا نام دیا جاتا ہے۔لڑکوں کو اپنی زندگی کافیصلہ کرنے کا حق حاصل ہے لیکن لڑکیوں کی زندگی کا فیصلہ ان کے والدین یا بھائی کرتے ہیں۔اب عورت کو اپنی پوری زندگی اپنے شوہر اور سسرال والوں کی غلامی میں گزارنا ہے۔عورت کو صرف اپنا نوکر اور بچے پیدا کرنے کی مشین سمجھا جاتا ہے۔عورت کا کام اپنے شوہر کی خدمت،گھر کے کام کرنا اور بچے پیدا کرنا ہوتا ہے۔اسے قربانی کا بکرا بننا ہے۔ اگر کوئی اس غلامی کو قبول نہ کرتے ہوئے بغاوت کرے اور طلاق کا مطالبہ کرے تو ان کے والدین اور بھائی اس کی اس عمل کو اپنی غیرت کا مسئلہ قرار دے کر عورت پر ہر قسم کی دباؤ ڈال دیے جاتے ہیں۔ان کو ہر طرح کے ٹارچر کا نشانہ بناتے ہیں۔تاکہ وہ اپنے سسرال میں قربانی کا بکرا بنتا رہے۔
اگر کوئی عورت طلاق لینے عدالت نہیں جاسکتی،اس کیلئے اور کوئی راستہ نہیں رہتا تو وہ تعویز کا سہارا لیتی ہے تاکہ اسے اس غلامی اور بدحالی سے نجات مل سکے۔ ہمارے معاشرے کا سوچ اس قدر منفی ہوچکا ہے کہ اگر کوئی عورت اپنے شوہر سے طلاق لے لے تو عورت کے کردار پر سوال اٹھائے جاتے ہیں۔اس چیز کو نظرانداز کردیا جاتا ہے کہ لڑکی کو کس طر ح اس کی مرضی کے بغیر زبردستی شادی کرادی گئی تھی۔یا اس کا شوہر اور سسرال والے ان کے ساتھ کیا کیا سلوک کرتے تھے کہ عورت طلاق لینے پر مجبور ہوا ہے۔اس کا سارا قصور وار عورت کو قرار دیا جاتا ہے۔یہی ہے ہمارے معاشرے کا اندھا پن۔جو کچھ سوچے سمجھے بغیر سارا کسور عورت کا قرار دیتی ہے۔اگر کوئی شوہر اپنی بیوی کو طلاق دے دے ۔غلطی چاہے مرد کی ہی کیوں نہ ہو پھر بھی اس کا سارا کسور عورت کا ہوجاتا ہے۔کچھ کرے بھی قصور وار،کچھ نہ کرے بھی قصوروار۔
اگر چہ کچھ عورتیں معاشرے کے منہ سے اپنی عزت بچانے کیلئے پوری زندگی میں قربانی کا بکرا بننے پر مجبور ہوجاتی ہیں ۔وہ اپنی پوری زندگی بے حسی درد و کرب میں گزارتے ہیں۔کسی کو احساس نہیں کہ وہ اپنی زندگی کس طرح گزاررہی ہے۔معاشرہ ایسے بے بس اور لاچار عورتوں کو عزت دار کہتی ہے جو پوری زندگی میں قربانی کا بکرا بننے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ایسے معاشرے کس طرح ترقی کرتے ہیں جو عورت کو انسان ہی نہیں سمجھتے؟ان کو قربانی کا بکرا سمجھتے ہیں۔یہی معاشرے زوال کا شکار ہوجاتے ہیں اور ایسے قومیں کبھی ترقی نہیں کرسکیں گے جس میں عورت مردوں کے شانہ بشانہ کام نہ کریں۔اور اپنے صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کی اجازت نہ ہو۔ایسے قومیں زوال کا شکار ہیں۔
یہ آج کی بات نہیں عورت تو روز اول سے قربانی دیتا آرہا ہے لیکن عورتوں کی قربانیوں کے حوالے سے تاریخ خاموش ہے۔ڈاکٹر مبارک علی لکھتے ہیں کہ عورت کی قربانیوں کے نتیجے میں ہونے والے عوامل سے تاریخ خاموش ہے کہ ان کی قربانیوں نے کتنی جنگوں کو روکا۔معاشروں میں امن وامان قائم کیا۔آپس کی تلخیوں کو دور کیا۔تعلقات بہتر بنائے۔شکست کے زخموں کو مندمل کیااور لوگوں کو تحفظ اور سکون دیا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ عورت کی قربانی کو قربانی نہیں سمجھا گیا۔کیونکہ اس صورت میں انہیں ان فوائد کیلئے عورت کا احسان مند ہونا پڑتا۔اس لیے عورت اور اس کی قربانیاں تاریخ کے صفحات میں غائب ہیں۔
اور ویسے بھی قربانی اس شے کو کہا جاتا ہے جو جائیداد کا ایک حصہ ہوتے تھے مثلاََ ایک عرصے تک غلاموں کو دیوتاؤں پرقربان کردیا جاتاتھا۔اس کے بعد جانوروں کی قربانی کی جانے لگی اور اس قربانی میں عورت بھی شامل تھی۔کہ اسے کبھی دیوتاؤں کی خوشیوں کی خاطر قربان کیا جاتا تھا تو کبھی دریاؤں کی طغیانی سے بچاؤ کی خاطر بھینٹ چڑھایاجاتا تھا۔اس لئے جس شے کو قربانی کیاجاتا تھا۔اس کی حقیقت اور اہمیت کو تسلیم نہیں کیا جاتا تھا۔اور یہی صورت عورت کی تھی کہ وہ قربانی کیلئے پیش کی جاتی تھی۔لیکن اس کی قربانی کا صلہ اسے نہیں بلکہ مرد کو ملا۔
اگر جنگوں کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو جنگوں کو شروع تو مردوں نے کیا لیکن اس کی سزا عورتوں کو ملیں۔ خون ریز جنگوں کے نتیجے میں عورت اپنے شوہر۔باپ۔اور بھائی کو کھودیتا تھا۔اپنی عزت کھو دیتا تھا۔جنگ کے بعد اسے مال غنیمت کے طور پر دشمنوں کے ہاتھ لگنا تھا۔دشمن عورت کو اپنے حوس کا نشانہ بناتا تھا اور اسے ساری زندگی نوکرانی رکھا جاتا تھا۔یہ بھی دستور تھا کہ عورتوں کو دشمنوں کے ہاتھوں سے بچانے کی خاطر انہیں قتل کردیا جاتا تھا۔ لیکن عورتوں کی اس قربانیوں سے تاریخ میں کوئی جگہ نہیں ملا۔
کیا عورت مردوں کی طرح انسان نہیں ہیں؟؟ وہ مردوں کی طرح احساس نہیں رکھتے ہیں؟انہیں اپنے مرضی کے مطابق زندگی بسر کرنے کا حق نہیں ہے؟کیا انہیں اپنے لئے گھر بسانے کا حق نہیں ہے؟کیا عورت کو پیدائش سے لے کر موت تک قربانی کا بکرا بننا ہے؟
عورت کیلئے یہ احساس صرف انسانوں کو ہوتا ہے۔آدمیوں کو نہیں۔اور یہاں ہزاروں قسم کے آدمی ملتے ہیں۔لیکن انسان کم ملتے ہیں۔