کہتے ہیں کہ صرف بہادر روحیں ہی اس زمین پر اتاری جاتی ہیں کہ تم یہاں پر اس لیے موجود ہو کہ تمہاری روح بہت متحرک اور بہت زیادہ با حو صلہ ہے۔ اور جب تم خود سے اپنے ہونے کی وجہ پوچھوگی تویہ بتاؤ کہ تمہارے ہونے کی وجہ اتنی عظیم ہے کہ جسے تم کبھی خود بھی نہ جان سکو۔
عورت کو جب تخلیق کی ذمہ داری سونپ دی گئی ، اسے ماں بنا کر جنت اس کے قدموں تلے کر دی گئی تو یہ ایک ہی عظمت عورت کو آسمان کی بلندیوں میں پرواز کے لیے کافی ہے ۔
ٓ لیکن مفکرین کی اکثریت نے اسے حقارت کی نظر سے ہی دیکھا۔ ارسطو کا قول ہے کہ قدرت جب کسی مرد کو بنانے میں ناکام ہو جاتی ہے تو اسے عورت بنا دیتی ہے۔
ابن رشد کا کہنا ہے کہا کہ دورِ جاہلیت میں زبوں حالی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ مردوں نے عورتوں کو گھر کے مویشی اور گملے کے پھول بنا رکھا تھا۔
دورِ جدید میں کارل مارکس نے معاشرتی مساوات اور عورت کی آزادی کا پرچار کیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ چوں کہ عورت ذاتی ملکیت کے طور پر محکوم ہوئی اس لیے ذاتی ملکیت کے خاتمے سے عورت بھی آزاد ہو جائے گی۔ آج بھی کچھ ممالک ان نظریات پر عمل کر رہے ہیں اور عورت ہر میدان میں مرد کے شانہ بشانہ کام کر رہی ہے۔
ہمارے ہاںآج کا دور عورت کے حوالے سے زمانہ ء جاہلیت سے کس حد تک مختلف ہے؟ کیوں کہ آج بھی تو عورت کو زندہ درگور کیا جاتا ہے ۔ ہاں بس طریقے مختلف اختیار کیے گئے ہیں۔آج بھی تو عورت کو فضول رسموں نے نڈھال کیے رکھا ہے اوران فضول رسموں کے پجاری عورت کو کبھی غیرت کے نام پرقتل کر رہے ہیں اور کبھی غیرت کو بالائے طاق رکھ کر لب اور ولور کے نام پر اس کی بولی لگا رہے ہیں۔ جب عورت کے جسم کو میدانِ جنگ بنایا گیا ہے اور اس کے جسم کے نیل مار پیٹ کی گواہی دے رہے ہوتے ہیں ، ان کے چہرے تیزاب کے حوالے کیے جاتے ہیں اور جنسی تشدد کو war tacticکے طور پر استعمال کیا جاتا ہے تو کبھی psycological abuse کے ذریعے انھیں اس قدر تشدد کا نشانہ بنایا جاتاہے کہ وہ ڈپریشن،اورPost Traumatic Stressکا شکار ہو کر خودکشی کرتی ہیں اور یا پھر نشے جیسی لعنت کا رخ کرتی ہیں۔کبھی غیرت کے یہ داعی جائیداد کو بچانے کے لیے عورت کو ستی بننے پرمجبور کرتے ہیں تو کبھی اسے وٹہ سٹہ کی آگ میں جھونک دیتے ہیں۔کبھی چھوٹی بچیوں کی معصومیت کو چھین کر ان کے ہاتھوں سے گڑیا جھپٹتے ہوئے اسے نکاح کے بندھن میں باندھ دیتے ہیں کہ جب وہ یہ بھی نہیں جانتی کہ شادی ہے کس بلا کا نام۔ جہاں مرد کہتا ہے کہ عورت صرف بچے پیدا کرنے کی فیکٹری ہے، اسے عزت کس نے دی ہے ۔ اس سے محبت کون کرتا ہے۔ آج بھی عورت کو گھروں اور دفاتر میں جنسی طورپر ہراساں کیا جاتا ہے اور آج بھی وہWomen Trafficing کا شکار ہیں کہ اس گھناؤنے کاروبار میں جانے کتنے نام نہاد شریف مرد شامل ہیں۔
خواتین کی صحت کا یہ حال ہے کہ آج کے دور میں بھی بلوچستان کے ایسے علاقے موجودہیں کہ جہاں صحت کی بنیادی سہولتوں کا فقدان ہے ۔ عورتیں پانی بھرنے جاتی ہیں اور راستے میں ہی بچہ جنتی ہیں اور پھر بچے کا ناف ایک پتھر پر رکھ کر دوسرے سے کاٹتی ہیں ۔
اکیسویں صدی میں بھی عورت کو علم کی روشنی سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ کس ترقی کی بات کی جا رہی ہے؟ کیا ہمارا معاشرہ اکیسویں صدی میں عورت کی ترقی کے بغیر پورے وقار اور شان سے قدم رکھنے کے قابل ہے؟
اللہ پاک نے تو صنف کی بنیاد پر کوئی فرق نہیں کیا ۔ اس ربّ پاک نے تو ایک ہی مٹی سے مرد اور عورت دونوں کو تخلیق کیا۔ پھر وہ کون سا وقت تھا کہ جب شیطان نے مرد کی حوصلہ افزائی کر کے عورت پر برتری دلا دی؟ مرد کو اللہ کی ودیعت کردہ طبعی طاقت کو مرد کا ایک عظیم کارنامہ قرار دیا گیااور پھر اسی بنیاد پر معاشرے میں عورت کا استحصال شروع کر دیا۔
کوئی بھی قوم کبھی بھی عظمتوں کے مینار کو نہیں چھو سکتی جب تک کہ نصف آبادی کا استحصال ختم نہ ہو۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ کوئی بھی پرندہ کبھی بھی ایک پر سے نہیں اڑ سکتا جب تک اس کے دونوں پر موجود اور پوری طرح تندرست نہ ہوں،لہٰذا یہ معاشرہ، ہمارا یہ ملک دونوں پروں یعنی مرد اور عورت دونوں کی ترقی کے ساتھ ہی ترقی کرے گا۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے بلکہ عورتوں کو ورغلانے والی ذہنیت کہتی ہے کہ eqality اور similarity ایک چیز ہے کہ اگر عورت برتن دھوتی ہے تو مرد بھی دھوئے گا ، نہیں، بلکہ بات تو اس سے کہیں زیادہ آگے کی ہے، بات تو اس سے کہیں زیادہ اونچی ہے۔ بات تو حقوق کی ہے کہ عورت کی ذات کو تسلیم کرتے ہوئے اس کو سماجی، اقتصادی، سیاسی اور ذاتی بنیاد پر حقوق دیے جائیں۔
کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ارتقا کرنے کے لیے، ہماری سوچ کو بڑھانے کے لیے ہمیں دکھ اور تکلیف کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمیں پا لینے سے پہلے کچھ کھو دینا ضروری ہوتا ہے۔ ہم کھو کر ہی پا نے کی جستجو کر سکتے ہیں کیوں کہ اس میں شک نہیں کہ درد ہی سبق دیتا ہے آگے بڑھنے کا ۔ دراصل عورت ہمیشہ ظلم و ستم کا شکار رہی ہے جس نے اس کے اعتماد کو چھین لیا ہے لیکن اب عورت کو اپنا کھویا ہوا اعتماد بحال کرنا ہے۔ اس لیے اب یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ ایک عرصے سے عورت کا جو استحصال کیا جا رہا ہے تو اب وہ وقت آگیا کہ وہ درد آشنا بھی ہے اور اس نے بہت کچھ کھو بھی دیا ہے لہٰذا اب وہ بلند حوصلے کے ساتھ آواز اٹھاتی ہے۔
عورت نام ہے ایک طاقت، حوصلے اور ایک وقار کا اور جو بھی عورت خود کو، اپنے آپ کو عزت دے گی، ایک جگہ دے گی اور پوری طرح اپنی سوچ، اپنے افکار ، اپنے حق کے لیے لڑے گی۔ عورت پورے اعتماد کے ساتھ ایسی دنیا بنائے گی جیسی وہ چاہتی ہے ،وہ مرد سے اپنی مرضی کی دنیا بنانے کی امید نہ رکھے گی۔ وہ کبھی بھی مشکلات کی وجہ سے ہار نہیں مانے گی کیوں کہ وہ جانتی ہے کہ اصل عورت وہی ہے جسے ٹکڑے ٹکڑے بھی کیا جائے تو بڑ ے تحمل بڑی بہادری سے اٹھ کر اپنے چھوٹے چھوٹے کیے گئے ٹکڑے سمیٹ کر پھر سے اپنی تعمیر کر کے حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے ڈٹ کر کھڑی ہوجاتی ہے۔
اب کرنا کیا ہے؟ یہ وقت ہے بیدار ہونے اور دوسری عورتوں کو بیدار کرنے کا کیوں کہ معاشرے میں کسی قسم کی تبدیلی لانے کے لیے ہمیں سب سے پہلے خود کو، اپنے رویوں کوبدلنا ہوگا، تب ہی ہمارا طرزبدلے گا۔سب سے پہلے تو یہ بات سمجھنے کی ہے کہ Empowerment کہتے کس کو ہیں؟ جب ہم خود کو یہ اختیار دے دیں، طاقت اور توانائی دیں ۔مادی نہیں، بلکہ ایک سوچ،ایک خواہش آگے بڑھنے کی۔ شکاری رسموں سے بچ نکلنے کی اور اپنے جائز حقوق حاصل کرنے کی ،تو ہم Empower ہو گئے کیوں کہ Empowerment ایک احساس ہے، ایک جذبہ ہے جو ہمیں خود میں پیدا کرنا ہے اور یہ احساس ، یہ جذبہ دوسری عورتوں کو بھی منتقل کرنا ہے، کیوں کہ کہتے ہیں کہ مردوں نے جو غلامی عورت پر تھوپی اس سے کہیں زیادہ گہری غلامی وہ ہے جسے عورت خود جنم دے رہی ہے۔ جب کوئی تم پر غلامی مسلط کرتا ہے تو تم اس کے خلاف بغاوت کرسکتے ہولیکن اگر تم خود آزادی کے نام پر خود پر غلامی مسلط کر لوتو پھر بغاوت کا چانس مشکل سے ہی باقی بچتا ہے۔ ہمیں قرۃالعین طاہرہ بننا ہے ۔اپنے حق کے لیے آواز اٹھانی ہے، بے شک ہمارا گلا گھونٹ دیا جائے لیکن ہماری سوچ، ہماری فکر، ہماری جدوجہد کو نہ کوئی قید کر سکتا ہے اور نا ہی اس کو مار سکتا ہے۔
اور جب یہ جذبہ، یہ احساس عورت میں پیدا ہو گیا تو پھر سمجھو کہ منزل آسان ہو گئی ۔کیوں کہ پھول یوں ہی نہیں کھل جاتے صاحب، بیج کو دفن ہونا ہی پڑتا ہے۔