سڑک پر کا رو ں ، بسوں ، رکشو ں اور مو ٹر سائیکلوں کا دھواں اور شور کا ایک سیلاب ہے جس میں سے ہم گزر رہے ہیں ۔ میرے بائیں ہاتھ پر گورا قبرستان ہے جس میں چند دن پہلے وہ خاک کی چادر اوڑھ کر سوگئی ۔میں قبرستان کے دروازے سے آنکھ چراتی ہوں ۔کیسے نہ چراؤ ں کہ ایک عزیز دوست کی زندگی قطر ہ قطرہ مو ت کے کنو ئیں میں اتر رہی تھی اور مجھے معلوم نہ تھا ۔اس نے لکھا تھا :’’ زندگی مرے اندرسے آری کی طر ح …..گزرتی رہی ہے ……گزرتی رہی ہے ……دکھ اور درد کے دندانو ں والی زندگی کی آری نے اسے چیر دیا ۔ وہ جو آمریت سے جم کر لڑی تھی وہ کینسر سے ہا ر گئی ۔
اس کا نا م نسرین انجم بھٹی تھا ۔ اردو اور پنجابی میں نثری نظم کی ایک نمودار شاعر ۔ اس سے آخری ملاقات شاید الحمر کے ادبی جشن کے دوران ہو ئی تھی۔ہم نے ایک دوسرے کو دیکھا تھا ،آنکھو ں میں کو ند الپکا تھا اور ہم نے لپک کر ایک دوسرے کو گلے لگا لیا تھا ۔ یا شاید وہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کا سیمنار تھا جس میں ہم دونو ں بہم ہو ئے تھے اور نہیں جاننے تھے کہ یہ ہماری آخری ملاقات ہے ۔
وہ کو ئٹہ میں بن یا مین بھٹی اورا یلس بھٹی کے گھر پیداہوئی ۔ اس نے صلیب کے سائے میں آنکھ کھو لی ۔ ہو ش سنبھالا ۔ محنت کش ہا تھو ں نے اسے پیار کے پنگو ڑے میں پالا ۔دوبہنیں ،دوبھائی ۔سہراب رہا اور سکندر چلا گیا ۔چھو ٹی بہن پروین شادی کے بعد کراچی میں رہتی تھی ۔اپنے باغیانہ مزاج کا ذکر کرتے ہو ئے عارفہ شہزاد سے نسرین انجم نے کہا تھا ۔ : میں بہن بھا ئیو ں میں سب سے بڑی تھی ، اس لیے ان سب کو لے کر باہر نکل جاتی تھی ۔ ہم سب مل کر کنچے کھیلتے ،پتنگیں اڑاتے اور اگر کو ئی ڈھو ل والا نظر آجاتا تو اس کے پیچھے چل پڑتے ۔ ہم سب بہن بھائیوں کا رویہ شروع ہی سے باغیانہ تھا ۔اپنے بہن بھائیو ں کو سارادن باہر گھمانے پر مجھے گھر سے مار بھی پڑتی تھی ۔ابتدائی تعلیم میں نے سندھ سکو ل سے حاصل کی ۔اس سکو ل میں ایک ٹیچر تھیں مس ممتاز۔ ان کی شخصیت سے میں بہت متاثر تھی ۔انہو ں نے مجھے ادبی شخصیت بنانے میں اہم کردار اداکیا ۔انہو ں نے مجھے کلاس کی ما نیٹر بنا رکھا تھا۔ اور لا ئبر یری کی چابی بھی مجھے دے رکھی تھی۔ یہی وہ وقت تھا جب میں نے شکسپیئر کے ڈرامے ، رومن مائیتھا لو جی اور پرو میتھیس کا مطالعہ کیا جو یو نانی دیو تاؤں کا بیٹا تھا اور جس نے انسانی فلاح کے لیے کا م کیا ۔اس نے سردی کے مارے لو گو ں کو دیوتا ؤ ں کی آگ چراکر دی۔ان سب چیزو ں کے مطالعے سے میر اادبی رجحان بہت بڑھ گیاِ ‘‘۔
وہ نویں میں پڑھتی تھی جب اس کے شعور میں شاعری کا اکھوا پھوٹا-یہ وہ دن تھے جب اماں نے روٹیاں پکانے کی ذمہ داری اس کے سپرد کر دی تھی-رات میں وہ توے پر رو ٹیاں ڈالتی جاتی اورباورچی خانے کی دیوار پر اپنے ذہن میں آنے والے شعر لکھتی-گرم روٹی کے سوندھے پن کے ساتھ اس کے جذبات کی خوشبودیوارپر پھیلتی-اسی زمانے میں اس کی پہلی نظم چھپی جس پرصرف وہی نہیں اترائی اس کے ابا بھی خوش ہوئے-انہیں شاعری کا شوق نہ تھا-ہاںیہ ضرورجانتے تھے کہ روٹیاں تو سب بیٹیاں پکا لیتی ہیں لیکن جذبوں کی آنچ سے دہکتے ہوئے شعرکہنا کسی کسی کے نصیب میںآتا ہے-عام گھروں میں شعر کہنے پر لڑکیاں مارسہتی ہیں لیکن بن یامین بھٹی نے اپنی بیٹی کو شاباش دی اور وہ شعروادب کے دشت کی سیاحی کو نکل گئی۔ پھر جلد ہی اس نے اپنا مقام بنا لیا-نسر ین ا نجم بلوچستان میں پیداہو ئی سندھ میں ٹہری اور پنجاب میں نام کمایا-زندگی کا سفرکوئٹہ سے شروع ہوا تھا اور کراچی میں تمام ہوا-
اس نے اوردو اور پنجابی میں شعر کہے ، لکیروں اور رنگو ں سے کھیلی ، ادبی رسائل میں اس کی شعری تخلیقات شائع ہو ئیں ، تصویروں کی نمائش ہو ئی ۔ریڈیو پاکستان لاہور میں پروگرام پرڈیو سر ہوئی ۔مو سیقی کی تربیت وہیں سے حاصل کی ۔علم و ادب کا چسکا تھا ،بائیں بازو کے ادیبوں اور شاعرو ں کا ساتھ ہوا تو وہ خو د بھی اسی رنگ میں رنگی گئی ۔ذولفقار علی بھٹو پنجاب کے چہیتے تھے ۔اس حوالے سے نسرین پیپلز پارٹی کے لو گو ں کی سنگی ساتھی ہو ئی ۔جوش و جذبے سے بھرے ہو ئے یہ لو گ بھٹو صاحب کے دیوانے تھے ۔ 1977میں ضیاء الحق نے جمہو ریت کی پشت میں آمریت کا خنجر اتار دیا ۔اس واقعے نے نسرین انجم بھٹی اور دوسرے نو جوان ادیبو ں اور شاعروں کی تخلیقی زندگی بدل دی۔
یہ لو گ ہتھیار نہیں اٹھا سکتے تھے ۔انہو ں نے اشعار ،افسانو ں ، اور نثری تحریرو ں کو خنجر ،تیر ، تبر بنالیا ۔
جمہو ریت پر جنرل ضیاء الحق کے شب خون اور پھر ذولفقار علی بھٹو کی پھانسی ملک بھر کے ، اور بطو ر خاص پنجاب اور لا ہو ر کے ادیبوں اورشاعروں کو بے حال کر گئی ۔کتنے ہی قیدہوئے ،کتنو ں کے حصے میں کو ڑے آئے۔اشتعال اور مزاحمت کا رنگ چوکھا تھا ۔اسی زمانے میں نسرین انجم کی پنجابی شاعری سب کے لیے اپنے غصے کے اظہار کا ایک ذریعہ بن گئی ۔ یہی وہ دن تھے جب نسرین نے لکھا ،’’ وہ کو ن ہے جو میری انتڑیو ں سے چار پا ئی بنناچا ہتاہےِ ؟ ۔اس کی نظم ’’شہادت ‘‘ان ہی تاریک دنو ں اورگھنی اندھیری راتو ں کا نو حہ ہے :
پھر یو ں ہو ا کہ سر خ گلاب چومنے کے جرم میں … ….سیاہ ہو نٹ جلادیئے گئے …..اور زخم زبانیں قلم کر دی گئیں ……اس سے یہ تو نہ ہوا کہ گلاب اگنا بند ہو جا تے ……اتنا ضرور ہو ا کہ لب چو منے کی رسم ختم ہو گئی ………دھڑکتی ہوا کا والہانہ پن ……صرف یا داشتو ں میں با قی رہ گیا …..آنے والی نسل کے بچے …..گلاب کے پھول کو اسکی گر م خوشبو سے نہیں ……اس کے تیز کا نٹو ں سے پہچانیں گے …..ہر نسل کی اپنی پہچان ہو تی ہے …..ہر صدی کا اپناالمیہ ……یوں کہانی شروع کرنے سے پہلے ختم کرنے کا دستو ر … ….ان ملکو ں میں رواج پاگیا ….جہا ں پھر رفتہ رفتہ گلاب کے پھو ل کا نٹو ں میں ڈھل گئے ……..یہ ملک شام کا قصہ ہے جو لو گ شام سے پہلے نہیں سناتے …….
اس کی نظم ،کس کا لہو ہے ؟، کون مرا،، بھی اسی سلسلہ خیال سے جڑی ہوئی ہے :
پیٹ بھر جائے تو دل خالی ہوجاتا ہے ……اندھے کنو ئیں کی طرح جس میں فا ختہ کی آواز کی گو نج ……امڈ گھمڈ برستی رہتی ہے …….جامنی در ختو ں پر دودھیا اندھیرے میں فا ختا ئیں سوتی ہیں ،کو ئی نہ جگائے …………..جامنی درختو ں میں دلوں کو پھانسی دی جاتی ہے ………پھا نسیاں لگانے والے درخت کس خطے میں کاشت کیے جاتے ہیں ؟کیا نرسری میں ان کی پنیریا ں مل سکتی ہیں ؟ ۔…..ویسے اچھا کارو با ر ہے درخت خریدنے کا ، فا ختائیں بیچنے کا اور پھانسیاں چڑھانے کا …..پھانسی پانے والی گردن سے لہو کی مانند ٹپکتا رہتا ہے ………اور کو ئی نہیں پو چھتا کہ ……یہ کس کا لہو ہے ؟ کون مرا ؟ ……. ‘‘۔
پاکستان میں رہنا اسکی مجبوری نہیں ، اس کا انتخاب تھا ۔ اس کے با وجو د کہ اس کے گروہ پر ہمارے یہا ں کو ن سی افتاد نہیں گزری ۔ان کے گھر لو ٹے گئے، جلائے گئے ، نا خو اندہ اور حر ف نا شناس بچے شاتم رسول ٹہراکر جو روستم کی چکی میں پیسے گئے ۔ میر ی اس سے چند ہی ملاقاتیں تھیں لیکن وہ کس قدر با معنی تھیں ۔ نسرین سے آنکھ ملا کر بات کر نا کس قدر مشکل تھا ۔وہ جو زندگی کی آخری سانس تک طبقاتی جدو جہد ، عورتوں کے حقوق اور ناداروں پر ہو نے والے ستم کے خلاف لڑتی رہی ، لکھتی رہی۔ وہ چلی گئی ہے اور ایک سو رما ہمارے درمیان سے اٹھ گیا ہے ۔وہ کیسی بے ساختگی سے کہتی تھی کہ میں پیدائش کے اعتبار سے بلو چ ہو ں ، ڈومیسائل میراسندھ کا ہے ، شادی میں نے پنجابی سے کی ہے۔ بچپن میراکو ئٹہ میں گزر ا اور میری ابتدائی تعلیم ایک ایسے سکو ل میں ہو ئی جہاں ہزارہ لڑکیا ں تھیں جو فارسی بو لتی تھیں ۔
ہمارے درمیان سے ایک باغی شاعرہ رخصت ہو ئی ہے جو عشق کی تان اڑاتی تھی ، اور جس نے بھیڑیو ں کے درمیان رہ کر بھی رجز پڑھنا نہیں ترک کیا ۔ اس کی احتجاجی شاعری کا پہلامجموعہ آنے والا تھا تو خفیہ کے لو گ اس کا تعاقب کرتے تھے اور شریف پبلشروں نے اس کا مجموعہ شائع کر نے سے معذرت کر لی تھی ۔ آج میں اس سے معذرت کر تی ہو ں کہ میں نے تم سے اتنی ملا قاتیں نہیں کیں ، جتنی کر نی چاہیے تھیں ۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ اب ہر عذر اور معذرت رائیگاں ہے ۔