(نسرین انجم بھٹی کی یاد میں)
نسرین انجم بھٹی کی نظمیں ستّر کی دہائی سے میرے ساتھ ہیں۔ اس وقت جب نثری نظم بحث کا موضوع بنی ہوئی تھی اور سوال اٹھایا جاتا تھا کہ نثری نظم شاعری ہے یا نہیں، تو نسرین کی نظمیں جواب کے طور پر پیش کرتے تھے۔ پھر جب اس کا مجموعہ ’’بن پاس‘‘ چھپا تو میں نے دیکھا کہ یہ نظمیں مخالفین سے مقابلے کے لیے بہترین ڈھال تھیں، نثری نظموں کے حوالے سے بھی اور نسائی شعور کی بازگشت کے طور پر بھی ’’بن باس‘‘ کی ترتیب میں پہلا حصہ یوں شروع ہوتا ہے۔
پہلا حصہ۔۔۔
’’مائی ری! آنکھیں گھونگھٹ کے اندر
اور پاؤں!
پالنے سے باہر کیوں جلتے رہے۔‘‘
اس آغاز سے کتاب کے مزاج اور شاعرہ کے شعور و آگہی کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ اب چند نظمیں دیکھیے اور فیصلہ کیجیے کہ کیا ان نظموں کو شاعری ہونے کی گواہی کی ضرورت ہے۔
پھر تینوں حصوں سے یہ چند نظمیں دیکھیے
اقرار
میں نے آسماں کو اپنے اُوپر نہیں تانا
میں نے دھرتی کو بھی اپنے پاؤں کے نیچے نہیں پھیلایا
دونوں میرے اندر ہیں۔۔۔
میں ایک سمندر لڑکی ہوں جو اپنے آپ کو لڑکا کہہ کر خوش ہوتی ہے
اپنی انا کی سولی پر لٹکی ہے
نیند بُلانے کی کوشش میں جاگ رہی ہے، بھری دوپہر میں
میں نے اک جگنو پکڑا اور برسات کے پچھلے دن تھے
باڑے میں پھر نیند بھی کیسے آتی۔ اتنی بھینسیں اتنے سانپ
بین بجاؤں یا نہ بجاؤں، سوؤں نہیں بس جاگے جاؤں
آنکھوں کے ڈورے بھی اکڑ گئے ہیں
کون گلابی کپڑے پہنے ادھر سے گزرا تھا ابھی، مجھ کو میری سُولی پر کچھ اور بھی کَس دو مجھ سے خواب نہیں دیکھے جاتے اب، اور حقائق
’’ساون کا اک دن بھادوں کی اک شام‘‘
بارش کے دنوں پر یقین رکھنے والو!
یقین رکھو کہ میں نے دل دُکھن سے
اور آنکھیں آنسوؤں سے اس لیے بھرلی ہیں
کہ وہ موتی چُگتا ہے
کوئی دکھ جو موتی بننے کے عمل میں آنسوؤں کی راہ سے گزرے تو۔۔۔
بارش کے دنوں پر یقین رکھنے والو
جب پرندے پیاس کی تاب نہ لاکر بادلوں کا تعاقب کرتے ہیں
تو کوئی آنکھ کیوں بھر نہیں آتی
خالی آنکھوں کے پیالے کیا جان کر خالی رہے
بارش کے دنوں پر پھر بھی یقین رکھنے والو
میرے تلوؤں کا لہو میری آنکھوں میں سُوکھ گیا
میں نے جس کو زبان دی تھی
وہ اسے آواز کا رُس کب دے گا؟
وادی کی سب آوازیں خاموش ہیں
اک تیری آس کے دھیان میں
اک تری آواز کی لگن میں میَں مہندی کا درخت بن گئی
درختوں میں سب سے بے بس
اور موسموں میں سب سے عجیب، آگ تراشی شام
کون سا بھید چھپائے گی
کون سا بتائے گی۔۔۔ ہاں! بارش کے دنوں پر یقین رکھنے والو۔۔۔
’’شہادت‘‘
پھر یوں ہوا کہ سُرخ گُلاب چومنے کے جُرم میں
سیاہ ہونٹ جلادیئے گئے
اور زخم زبانیں قلم کردی گئیں
اس سے یہ تو نہ ہوا کہ گُلاب اُگنا بند ہوجاتے
اتنا ضر ور ہوا کہ اب چُومنے کی رسم ختم ہوگئی
دھڑکتی ہوا کا والہانہ پَن
صرف یادداشتوں میں باقی رہ گیا
آنے والی نسل کے بچّے
گلاب کے پھول کو اس کی گرم خُوشبو سے نہیں
اس کے تیز کانٹوں سے پہچانیں گے
ہر نسل کی اپنی پہچان ہوتی ہے
ہر صدی کا اپنا المیہ۔۔۔
یوں کہانی شروع کرنے سے پہلے ختم کرنے کا دستور
ان ملکوں میں رواج پاگیا
جہاں پھر رفتہ رفتہ گلاب کے پھول کانٹوں میں ڈھل گئے
یہ ملک شام کا قصّہ ہے جو لوگ شام سے پہلے نہیں سناتے۔۔۔
’’ایک سازش جو میرے اندر پکڑی گئی‘‘
اُس رات سب چہروں پر سائے تھے
چُپ بولتی نہیں تھی ڈراتی تھی
اُنگلیوں کی گرہوں میں ایک ایک بچھو تھا
میز کے گرد جمع سب لوگ یکلخت اُٹھ کر کھڑے ہوئے
شاید سمے سُہانا نہیں تھا
چاند سے ڈر لگتا تھا۔۔۔
لوگ بہانے بہانے سے ایک دوسرے کی طرف دیکھتے تھے
کوئی گہرا بھید
جسے چُھپانے کی تلقین تھی اور چُھپا نہ سکتے تھے
سخت سردی سے ہاتھ بغلوں میں دوبائے بیٹھے، لوگوں کے ہاتھ
تپ گئے تھے
مگر باہر نکالنے کا حکم نہ تھا
کوئی یدِ بیضا
پکڑا نہ جائے
پکڑا جائے تو چور۔۔۔ قائد کون تھا
چوروں کا قائد کون تھا
چوہوں نے شراب پی اور چوراہے میں آن بیٹھے کہ کوئی انہیں
اٹھائے تو انہیں
رتجگوں کے پیچھے اُونگھتی صبحوں کی لمبی قطاریں
تیزی سے گھومتی ہوئی اپنی جگہ ساکت
ششدر
پلکیں بھی نہیں اٹھتیں
بہت شرمندگی ہے
ہاں بہت لگا دو تو لفظ کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔۔۔
بڑھاؤ۔۔۔ دو کاں بڑھاؤ
میں نے یہ بھی غلط کہا
میں نے وہ بھی غلط کہا
میں نے کیا سچ کہا کچھ وہ بھی تو کہو
کہ میرا کہنا بھی اسی فضا سے بنا ہے جس میں ہم سانس لیتے ہیں
اور سانس لہجے مرتب کرتی ہے
عورتوں کے عالمی دن پر
کس رُت آئے ہو؟
کہ تمہیں خوش آمدید بھی نہیں کہہ سکتی
درمیان حائل
آنکھوں میں آنسو تمہیں دیکھنے نہیں دیتے
ماتھے پر ٹیکا کہ سر نہ اٹھا سکوں
ہاتھوں میں چوڑیاں ہتھکڑیاں ہیں بج اٹھیں گی
پاؤں میں جھانجھریں۔۔۔ بیڑیاں ہیں
چلوں گی تو پکڑی جاؤں گی
بھاری لباس کی سرسراہٹ سازشوں اور سزاؤں کوجنم دے گی اور گھونگھٹ گردن کو کبھی اٹھنے نہیں دے گا۔ کبھی نہیں شاید
تاکہ میں نتھلی
سانس کے ساتھ مجھے گائے کی طرح گھسیٹتی ہے
کس رُت آئے ہو
کہ میں لڑکی سے پھر گائے بن چکی ہوں
’’وہ اور میں‘‘
اُس کا DIET CHART بناتے ہوئے میں نے اپنے غریب دنوں کو یاد کیا اور میری آنکھیں بھر گئیں
میرا دل نغموں سے لبریز ہوا، میرے ہونٹ جل اُٹھے
اتنی امارتیں میری جوانی کو کہاں نصیب تھیں
کب نصیب تھیں اس کی محبتوں کے بغیر
میری خالی انگلیوں سے اس نے ہجر کا موسم اتار لیا
مرے آنسوؤں کی اشرافیاں مرے تکئے پر بکھرتی جاتی ہیں
کیا اس کے آنے کا دن قریب ہے
میری پلکوں کی چھاؤں گہری ہوتی جاتی ہے
آمیرے مسافر! پربتوں پر خزاں اترنے سے پہلے
وادئ جاں میں قیام کر لے
میں نے دل کے دہانے پر ترے نام کا چراغ جلا کر رکھ دیا ہے
یہ آخری بات ہوتی ہے جو کوئی کسی کے لیے کرتا ہے
کیا کچھ پوچھنا باقی ہے۔۔۔
کیا میرے لہجے میں میری گہرائی نہیں
مجھے اپنے بوسوں کے بازو بند پہنانا۔۔۔ میں رقص میں ہوں
فریب میں نہیں
کہ میں تمہیں محبت کے سوا دوسرا نہیں دے سکی
وہ اور میں
وہ دل میں اترتا ہوا تیر ہے
میں آگ سے نکلتی ہوئی لکیر ہوں۔۔۔
ہمارا ملن قیامت کی گھڑی کا جنم دن ٹھہرا
وقت ہمیں ترازو میں تولتا ہے
ہم ہواسے بھی ہلکے ہوکر گر پڑتے ہیں
ہوا ہمیں معاف کرے
اور زمین ہمیں پہچان لے تو ہم پھر ترتیب دیئے جائیں
وہ میرا حق ہے چاہے مجھے کبھی نہ ملے
مگر حق چھوڑنا ظلم کی بنیاد رکھنا ہے۔۔۔
آرزو کے بیتاب لمحے کہیں بکتے ہوئے نہیں ملتے
کچی چاندی کے پھلواں زیور
سر سے پاؤں تک، ’’پہن لوں‘‘ اور بج اٹھوں
وہ دل میں اترتا ہوا تیر ہے
میں آگ سے نکلتی ہوئی لکیر ہوں
میرا بدن فاختہ کے رنگ جیسا
اور میرا من چاندی کا
میری ہنسی مکی کے بھٹے ہوئے بھوننے کی کسی
اور میرا رونا کپاس پر بارش جیسا
میرا محبوب مرے ہاتھوں میں اپنے پاؤں چھوڑ گیا
اور میرے ہونٹوں پر اپنی آنکھیں
میری بانہوں کے پھیلاؤ تک تم میرے ہو
اس سے آگے میں تمہاری ہوں۔۔۔
اپنے محبوب کیلئے ایک نظم
تمہیں دیکھتی ہوں توجڑوں تک کانپ جاتی ہوں۔ تمہارے نام کے حروف میری سانسوں سے ترتیب دیئے گئے ہیں کیا؟
رفتنی! تجھے رخصت کرنا کتنا مشکل ہے، کاش دروازے صرف خوش آمدید کہنے کیلئے بنے ہوتے۔ میرا دل اڑے ہوئے کبوتر کی طرح ہوا میں ہے
تمہارے ہونٹوں سے میں نے طلوع ہونا سیکھا
کائنات تمہارے پاؤں چھو لینے کا نام ہے
جاؤ، میرے جانے والے!
تمہاری بند آنکھوں پر میں نے اپنے نام لکھا
اور تمہارے کھلے ہونٹوں پر اپنا دل رکھ دیا ہے
ضروری نہیں کہ جذبوں کو لفظ ہی دیئے جائیں
لمس پر لفظ اور معانی ختم ہوجاتے ہیں
صرف خاموشی
دو سانسوں کو ایک کرتی ہے
تو تمام علم مکمل ہوجاتے ہیں
تم میری تکمیل ہو، جاناں!
میری ہونٹوں پر تمہارے ہونٹوں نے محبت کشف کیے
تم میری روح میں اترتا سبز موسم ہو
جاؤ، میرے جانے والے!
تمہاری بند آنکھوں میں نے اپنا نام لکھا
اور تمہارے کھلے ہونٹوں پر اپنا دل رکھ دیا ہے
ضروری نہیں کہ جذبوں کو لفظ ہی دیئے جائیں
لمس پر لفظ اور معانی ختم ہوجاتے ہیں
صرف خاموشی
دو سانسوں کو ایک کرتی ہے
تو تمام علم مکمل ہوجاتے ہیں
تم میری تکمیل ہو، جاناں!
میرے ہونٹوں پر تمہارے ہونٹوں نے محبت کشف کیے
تم میری روح میں اترتا سبز موسم ہو
میری آنکھوں میں تمہاری آنکھیں نہ پاکر چاند اداس ہوجاتا ہے
کبوتر کا دل تو اس کی آنکھوں میں ہوتا ہے
آنکھیں بند کر کے
آنکھیں کھولنے تک ہی تمام زندگی کا حسن ہے۔۔۔ میرا دل تمہاری آنکھوں میں ہے
میں نے تم سے صرف خوفزدہ ہونا سیکھا ہے
چونک چونک پڑنے میں میرے بوسے کچے پھلوں کی طرح
ٹوٹ ٹوٹ جاتے ہیں
پیاسی ہرنی، ہجر کی کالی ہوا سونگھتی پھرتی ہے۔۔۔
نہ جاؤ
کہ پیاس ابھی اُدھوری ہے
آس ابھی اُدھوری ہے
دہک دہک کے بجھتے سراغ میرا بدن ناپتے ہیں
تمہارے جانے کے بعد
رات مجھ سے صبح تک روٹھی رہتی ہے
’’جانے والا مجھے اپنی پیاس بھی دے گیا‘‘
میں بتاتی ہوں تو میرے ہونٹ پھٹ جاتے ہیں
قربتیں بنانے والوں نے جدائی بناکر اچھا نہیں کیا
پیڑوں کی شاخوں میں جواں ہونے والی چڑیاں
تمہاری صبحوں کو نغمہ بار کریں
تو جاگ جانا۔۔۔
کاش تم میرا نام لکھنا جانتے تو میں خط کا انتظار کرتی۔۔۔
اور سرمئی کبوتروں کا بدن پہن کر
تمہارے لئے فضا میں رقص کرتی۔۔۔
دھوپ کے کانچ میں تمہاری آنکھوں کی شراب پی کر
رقص کرتی
اور موم بتی کی طرح پگھل جاتی
رقص کرتی اور تمہیں جانے نہ دیتی
مگر جاؤ۔۔۔ میرے جانے والے۔۔۔ مگر جاؤ۔۔۔
آخر آخر
آسمان پناہ نہیں دیتا
زمین اُڑنے سے روکتی ہے۔۔۔ مجھے سانس کی تکلیف ہے
تم نے ہوا میں زہر گھولا ہے۔۔۔
اور چاہتے ہو کہ ہنسوں
سورج سہارنے کی طاقت پیدا کرتے کرتے دھات بہت سے گروپ بدل لیتی ہے
کُشتہ ہوجانا قیمتی ہوجانا ہوتا تو اور بات تھی
مگر موت کے تمام ذائقے چکھنے کے بعد کوئی یہ کہے کہ کشتنی میری قیمت تو لگا
اب بتا کہ میں مرا کہ زندہ بچا
اور کتنا بچا؟
تو میں اپنے آپ کو بچا بچا کر رکھوں بھی
ہاں۔۔۔ مگر۔۔۔ ہاں
جب دھوپ ڈھل گئی تو ہم سے اپنا سایہ بھی نہ سمیٹا گیا۔۔۔
ایک روپیہ ٹوٹ جاتا ہے۔۔۔ تو بہت سی اکنیاں پیدا ہوتی ہیں
بہت سی عورتوں کی طرح
جاہل، خود غرض اور ایک سی
بہت سی عورتوں کی طرح
سنگِ میل۔۔۔ جامد مگر دیکھتی ہوئی
ایک نظم بنتی ہے تو ساری دنیا سمیٹی جاتی ہے۔۔۔
تھر کی ایک رات گہری زمین جیسی
اور سانپ کے ڈسے مسافر کے ساتھ صحرا کے ستارے کی گفتگو
سارے جھڑ جانے والے سوال
اور ساری رہ جانے والی تہمتیں جس میں اس کا اپنا نام بھی شامل ہوتا ہے
جو سنا جو کہا سب جُھوٹ تھا
سورج تو میرے بیٹے کا نام ہے اور چاند ابھی پیدا نہیں ہوا
ایک عورت نے کہا
عورت کا میکہ سب سے خوبصورت اور سب سے عزیز ہوتا ہے
ایک اور عورت نے کہا
مجھے پھولوں سے گوندھ کر اس کے لیے روٹی پکا دو کہ پھر وہ مجھے کبھی نہ بھول سکے
آنسوؤں کے ڈھیر میں سے مجھے اٹھالے، میں صرف ایک بوند ہوں
اور ایک عورت نے کہا اور کسی مرد نے نہیں سنا۔۔۔
چوہوں کے بچے
پھر بھی اتنا صبر خدا اور انسان دونوں پر لازم نہیں
اتنی بے قدری
قبر اور عورت دونوں کا جرم نہیں تھا
چادر کی طرح میرے چار کونے ہوتے تو ان پر چار چراغ جلاتی اور دھوئیں کو ہوا کے حوالے نہ کرتی۔۔۔
نیلے رنگ کے سارے نخرے میں نے اٹھائے
اور اس کے لمحے جب میری پنوز سو گئی اور آنکھیں جاگ اٹھیں۔۔۔
تم نہیں آئے آسمان کا رنگ اور زمین کی خوشبو سنبھالنے کے لیے مجھے جھولی بن جانا پڑا آندھی غمزہ عورت ہے،
جو رد محبت کا شکار ہوکر آگ بن جاتی ہے
اور چراغ میں نے یوں بجھایا کہ میری غربت کا پردہ رہ جائے
میری خشک روٹی اور جلا ہوا سالن تمہیں مجھ سے الگ نہ کردے
رزق اور محبت میں قربانی کا فاصلہ ہے ورنہ بھوک انسان اور جانور سے کچھ نہیں چھینتی
بھوک سے کوئی نہیں مرتا
نفرت سے دل مرجاتا ہے۔۔۔
چوہوں کے بچے میں نے اس لیے پکڑنے شروع کئے کہ وہ ہماری زبانیں کترنے لگے تھے
اور ہمارے لفظ اپاہج کرنے کاحق ابھی فروخت نہیں ہوا
اٹھتے لمحے کی گرتی دیوار کی طرح میں نے اگلا لمحہ تھام لیا
میرا دل میرے کمرے کی خواب ناک دیوار تھا
آج صبح دیوار پھٹ گئی اور سانپ کی طرح سرخ زبان والا نو خیز پودا
دونوں ہتھیلیوں سے میری سمت بڑھ رہا ہے
دیکھنا! چوہوں کے بچے میرے ہاتھوں کی لکیریں نہ لے جائیں
رزق دے کر میں نے دل بچایا ہے
دیکھنا! اس بند گلی میں چوہوں کے بچے میرا دل کتر رہے ہیں
چوہوں کے بچے میرے بازوؤں تک آگئے ہیں
چوہوں کے بچے میری آنکھوں تک پہنچے والے ہیں
میری نظم
وہ جو ہمیشہ جلدی میں ہوتا ہے اسے
آدھی ڈگر پر روک لینا
اور کہنا کہ ’’ہے راجن‘‘
جب تجھے کوئی ایسی نار ملے جس کے پلو میں ایک ٹوٹی ہوئی چوڑی
کے دو ٹکڑے بندھے ہوں
اور اس کی ہتھیلی میں چوڑی توڑ کر پیار جانچنے کا زخم ہو
اور جو تجھے خواب
اور تو جسے شک سمجھتا ہو تو مجھے یاد کر لینا
اور میرا کوئی نام نہ رکھنا
اور یہ بھی کہنا کہ! ہے پورن!
جب رات گھٹ کر آدھی رہ جائے
اور چاند بڑھ کر پورا
تو کوئی خواب نہ دیکھنا اور کوئی دعا نہ مانگنا
کہ کوئی چاند تم سا پورا
اور کوئی خواب تم سے سندر نہیں
ایسے میں تم بس آئینہ دیکھنا
یا جھیلوں میں اپنا مکھ
اور اس وقت تک دیکھتے رہنا
جب تک کبوتروں کی آنکھ نہ لگ جائے
اور وہ تمھیں آنکھوں میں بند کرلیں
اور اس سے کہنا کہ! ھے سوامی
تم جو میری آنکھوں کے قیدی ہو
اس شرط پر آزاد ہوسکتے ہو
کہ اپنی ہنسی چھوڑ جاؤ
میری آنکھیں لے جاؤ
تیز دھوپ میں تم پر چھاؤں کریں گی
کہ جڑواں بیٹیاں ہیں ہنسیں گی تو اکٹھی اور روئیں گی تو اکیلی
تم ان سے دونوں موسم مانگ سکتے ہو
اور اگر تم بہت سے دیکھنے والوں سے گزرو اور گزر نہ سکو تو
تو ان سے اپنا صدقہ اتار دینا
اور اس سے یہ بھی کہنا کہ ہے موہنا!
پت جھڑ کے پنکھ
ان پالکوں میں بانٹ دینا
جو تجھ سے پریم ودیا پڑھنے آئیں
اور جاتے سمے
پھولوں کے موسم
ناگنوں کو دے جائیں۔۔۔
اور اس سے کہنا کہ ہے رسیا
ماگھ کی رات اپنا جنگل چیونٹی سے مانگے
تو سمجھ لینا کہ ابھی سنجوگ کے دن میں کوئی دم باقی ہیں
اور جاگنے والے سونے والوں سے
اور سونے والے جاگنے والوں سے اچھے ہیں
اور اس سے یہ نہ کہنا کہ ہے نروئی!
آگ میں اک جیوڑ ا رہتا ہے جس کے پنکھ نہیں
اور جس کے نین ناچنا بھول گئے ہوں گے
اور جس کا من کبھی مدرا جیسا ہوگا
اور جو اپنے پریتم کے کسی جنم کا کفارہ ہوگا اور چپ رہنا