ماما عبداللہ جان ایک شخص نہیں بلکہ ادارے کا نام ہے ۔اس نے اپنی ساری زندگی تخلیق و تحقیق اور بلوچستان کے مفلوک الحال و استحصال زدہ عوام کی دلجوئی و خوشحالی میں صر ف کی ۔ماما آٹھ مئی انیس سو بائیس کو نوشکی کے ایک گاؤں میں اس جہان رنگ و بو سے آشنا ہوا ۔ابتدائی تعلیم اپنے آبائی گاوُں سے حاصل کی مزید تعلیم کے لیے کوئٹہ گیا۔گریجویشن اسلامیہ کالج پشاور سے کیا ۔
ماما پروگریسو رائٹرز ایسو سی ایشن میں بھی سرگرم رہے سیاست میں نیشنل عوامی پارٹی کے ہم خیال تھے ۔کراچی سے شائع ہونے والے بلوچی ماہتاک کے شونکار آزات جمالدینی کے ساتھ بھی بطور معاون کام کرتے رہے ۔بعد زاں انھیں نوائے وطن میں صحافتی خدمات سر انجام دینے کا موقع ملا ۔ ماما کا سب سے بڑا اور تاریخی کارنامہ بلوچستان یونیورسٹی میں بلوچی زبان و ادب کے لسانیاتی شعبے کی داغ بیل ڈالنا ہے جس سے آج ہزاروں ادیب و دانشور اکتساب فیض حاصل کر کے بلوچستان کے مختلف ادبی اداروں میں زبان و ادب کی ترویج و ترقی کے لیے خدمات سر انجام دے رہے ہیں ماما عبد اللہ جان شعراء ادبا ء کی دنیا میں زندگی گزارنے کے باوجود شاعری سے کوئی خاص لگاوُ نہیں رکھتے تھے۔ انھوں نے اپنی پوری زندگی میں ایک نظم شان گل( ڈاکٹر شاہ محمد مر ی) کے نام پر لکھا اور اسی کے نام پر شائع کیا:
شان گل تو کجا ئے ۔۔۔۔۔۔۔۔ پرچا تو نیائے۔
وہ ایک شفیق استاد مخلص دوست اور مہروان سنگت بھی تھا وہ ہمیشہ اپنے ماضی کو یاد کرتے ہوئے اپنے دوست و احباب کا تذکرہ ضرور کرتا اور ان تذکروں میں زبان و بیان کی سچائی اور مٹھاس کی چاشنی اس قدر خوبصورت تھی کہ پورے ماحول اور دیوان کو وہ اپنے نرم اور دھیمے لہجے میں ساتھ لے کر ماضی کا سیر کرواتے اکثر وہ اپنے ہم عصر دوستوں کی حال پرسی اور خیریت دریافت کرتے ہوئے اشکبار ہوجاتا۔ یہی ایک دردمند انسان اور مخلص دوست کی پہچان ہے وہ نہ صرف اپنے دوست و احباب کے لیے اسطرح کے ہمدردانہ جزبہ رکھتا تھا بلکہ ایک انسانیت دوست کے ناطے پورے انسانیت کو مفلسی ،غلامی ،جبر و استحصال سے آزاد کروانے کی تگ ودو کو اپنے زندگی کا بنیادی مقصد سمجھ کر کوشاں تھا۔ یہی وجہ تھی کہ انھوں نے نائب تحصیلداری کو خیر اباد کہہ کر بلوچستان کے غریب اور مفلوک الحال عوام کے لیے اپنے نئے جذبات اور خیالات کو عملی جامع پہنایا۔پھر سائیں کمال خان اور دیگر ہم خیال ساتھیوں کے ساتھ عملی جدوجہد شروع کی۔ کیو نکہ اسے یہ احساس تھا کہ شاہی آفیسر ہوتے ہوئے مظلو م ا ور استحصال زدہ طبقے کی حقوق کے لیے آواز اٹھانا اپنے سوئے ہوئے ضمیر کو مطمئن کر نے کے سوا اور کچھ نہیں اسلیے اس نے نائب تحصیلداری کی کرسی کو لات مار کر اپنے غریب مفلس اور مزدور طبقے کے درمیان رہتے ہوئے تحریک کا باقاعدہ آغاز کیا۔ اس دوران انھیں گھریلو اخراجات پر قابو پانے کے لیے غم روزگار بھی دامن گیر ہوا۔ چناچہ سائیں کمال خان خداداد خان اور ماما عبد اللہ جان نے مل بیٹھ کر نئی زندگی کے بارے میں غور غوض کرتے ہوئے ایک سٹیشنری کی دکان کھولنے کا فیصلہ کیا ۔کہتے ہے کہ اس دوران مشورے میں لفظ (فی الحال) تکیہ کلام کی طرح بار بار استعمال ہورہا تھا ۔دلچسپی کی بات یہ ہے کہ جب سٹشنری کو نام دینے کا وقت آیا تو سب سوچ میں پڑگئے بلاآخر سائیں کمال خان نے کہا کہ کیوں نہ اس کا نام ( فی الحال )ہی رکھا جائے ۔پھر تینوں نے اسی نام پر اتفاق کیا ۔یہی سے انکی زندگی میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا ۔ انیس سو ترانوے میں جب ماما پر فالج کا حملہ ہوا تو ان کے ہم خیال ترقی پسند دوست و احباب ہمیشہ ان کی حال پرسی اور دلجوئی کے لیے ہسپتال جایا کرتے تھے انہی دوستوں نے فیصلہ کیا کہ ماما اپنی یاداشتیں (لٹ خانہ) کے نام پر لکھ کر ماہوار ماہنامہ نوکیں دور میں چھپوائے۔ پھر نوکیں دور نے قسط وار شائع کرتے ہوئے ماما کی داستان حیات کو محفوظ کرتے رہے ۔کہتے ہیں کہ جب انھیں واپس گھر لا یا گیا تو حسب دستور ان کے دوست احباب ہر جمعہ ان کے حال پرسی کے لیے ایک دو گھنٹہ جمع ہوجاتے اس دوران مختلف موضوعات پر سیر حاصل گفتگو اور تبادلہ خیال کا سلسلہ جاری رہتا ۔جس کے باعث اس گروہ کا نام جمعہ پارٹی پڑ گیا اور پھر جب انیس سو اٹھا نوے میں نواز شریف نے اپنے دور اقتدار میں سرکاری چھٹی جمعہ کے بجائے اتوار کے دن مقرر کیا تو یہ پارٹی اتوار میں تبدیل ہوگیا۔ کئی عرصہ گزرنے کے بعد نوکیں دور کا سلسلہ بند ہوا تو خوش قسمتی سے بہت جلد اسکا نعم البدل سنگت کے نام پر خوبصورت اور بہتر انداز میں شائع ہوگیا ۔ماہنامہ سنگت بنیادی طور پر روُف وارثی جنہوں نے ملازمت چھوڈ کر میر غوث بخش بزنجو کی گورنری اور سرپرستی میں کو ئٹہ سے اس رسالے کونکلنا شروع کیا جب نیپ کی حکومت کا خاتمہ ہوا تو وارثی صاحب بیرون ملک چلے گئے اور یہ سلسلہ یہی رک گیا۔ بعد ازاں ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب نے اس مشن کو آگے جاری رکھنے کا بیڑہ اٹھایا جو روُف وارثی کی ایک یاد گار کی صورت میں ہنوز تک ماہنامہ سنگت کے نام پر باقاعدگی سے شائع ہورہا۔ ہے اور لٹ خانہ بھی اسی تسلسل کے ساتھ قسط وار ماہنامہ سنگت میں بھی جاری رہا حتی کہ پھر سنگت اکیڈمی آف سائنسز کے دوستوں نے لٹ خانہ کے اقساط کو اکھٹا کر کے لٹ خانہ کے نام سے ایک کتاب ترتیب دی جس میں ماما اور ان کے رفقاء کی زندگی کے ہر پہلو روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ اس کے علاوہ (اوپار ) کے نام سے بھی ان کی بلوچی تحریروں کا مجموعہ پروفیسر سنگت رفیق صاحب نے بھی شائع کیا ہے جس میں ماما کے سیاسی ،سماجی ، ادبی اور صحافتی زندگی کی مختلف جہتیں شامل ہیں۔ ماما عبد اللہ جان چورانوے بر س چار ماہ کی عمر میں انیس ستمبر دو ہزار سولہ کو اس جہان فانی سے رحلت کر گئے اور یوں بلوچی زبان و ادب بالخصوص بلوچستان ایک عظیم انسان سے محروم ہوگئے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے