مظہرجمیل : عبداللہ جان جمالدینی صاحب ، گفتگو آپ سے بلوچی ادب کے بارے میں کرنی ہے اور آپ سے جاننا ہے کہ بلوچی ادب کے بنیادی عناصر کیا ہیں اور اس کاتاریخی اور معاشرتی پسِ منظر کیا ہے؟
جواب:بلوچی ادب کا سب سے بڑا اور اہم سرمایہ اس کی کلاسیکل شاعری ہے ۔ قدیم شاعری بلوچوں کی قبائلی زندگی کا آئینہ ہے ۔ ساتھ ہی یہ شاعری ان کی تاریخ کی ماخذبھی ہے ۔ مگر اس کا بڑا المیہ یہ ہے کہ اس کابہت بڑا حصہ ضائع ہوچکا ہے ۔ قبائلی زندگی کا ذریعہ معاش گلہ بانی ہوتا ہے جو متواتر لوگوں کو مدنیت سے دور رکھتی ہے ۔ بلوچی میں محاورہ ہے کہ گلہ بانوں کی زندگی مویشیوں کے منہ کے ساتھ ساتھ حرکت کرتی رہتی ہے ۔ وہ جہاں چاہیں زندگی کو ساتھ لے جائیں ۔ گویا چرا گاہوں کی تلاش میں مویشی بان کہیں سے کہیں نکل جاتے ہیں۔
مویشی بانی کے ذریعہ معاش نے بلوچ قبائل کو تاریخ کی طوالت میں نقل مکانی کرنے پر مجبور کیا ہے ۔ اس سخت زندگی نے انہیں مشکلات سے دوچار کیا ہے ۔ چاراگا ہوں کو حاصل کرنے اور اپنے ڈور ڈنگر کو زندہ رکھنے کے لیے بلوچ قبائلیوں کو جنگ کرنے پر مجبور کیا ہے۔ قبائلی دور کی جنگوں کی بنیاد چراگا ہیں تھیں ۔ مویشیوں کی زندگی قبائلی انسان کے زندہ رہنے کے لیے لازمی تھی۔
لہذا بلوچی کلاسیکل شاعری کا بیشتر حصہ قبائلی جنگوں کی داستانیں ہیں اور رزمیہ شاعری کی صورت میں ہے ۔ اس شاعری کا ایک حصہ رومانوی بھی ہے ۔ اس رومانوی شاعری نے بھی بلوچی کے اس قدیم ادب کو لازوال بنایا ہے ۔ بلوچی میں کلاسیکل شاعری کو دوحصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ جنگی اور رنگی شاعری۔ رنگی شاعری یہی رومانوی اور عشقیہ شاعری ہے۔
بلوچی کلاسیکل شاعری طویل نظموں کی صورت میں ہے ۔ یہ نہایت رواں، پُر لطف اور سچے واقعات کی داستانیں ہیں۔ ایسی شاعری میں قافیہ رویف کی کوئی پابندی نہیں ہوا کرتی تھی۔ مگر بحور بہت ہی پنے تلے اور موسیقیت سے لبریز ہیں۔ ان طویل اشعار کو سینہ میں محفوظ کیا جاتا تھا اور محفلوں میں انہیں ڈومب گایا کرتے تھے۔ بلوچی ادب کے اس گنج گرانمایہ کے محافظ یہی ڈومب ہوا کرتے تھے اور انہی کی برکت سے یہ سرمایہ ہم تک منتقل ہوا ہے ۔
مظہر جمیل : بلوچی معاشرہ اب تک قبائلی معاشرتی دور میں ہے اور اس میں مدنیت کی رفتار خاصی سست رہی ہے ۔ اس کے کیا وجوہ ہیں اور اس صورت حال کے اثرات ادب پر بھی تو پڑتے رہے ہوں گے؟
جواب: بلوچی معاشرہ بدستور قبائلی ہے ۔ اگر چہ صورت حال اب وہ نہیں رہی جو پندرہ بیس سال پہلی تھی۔ قبائلی ڈھانچہ اب تک قائم ہے ۔ سردار بدستور ہیں۔ زندگی کے ہر شعبے میں ان کا عمل دخل ہے ۔ بلکہ اس میں طبقاتی شعور کا اضافہ ہوا ہے۔ گردوپیش کے حالات نے سرداروں کے طبقہ کو اپنی بقاء کے لیے زیادہ رجعت پرست ، استحصالی اور سامراجی قوتوں سے وابستہ کردیا ہے۔
بلوچی معاشرہ قبائلی ہونے کی وجہ سے تمدن کے مراکز سے دور رہا ہے ۔ قبائلی معاشرہ بڑی حد تک خود کفیل ہوا کرتاتھا۔ جب قبائلی لوگ نقل مکانی کی زندگی گزارتے تھے اور راتیں ان کی خیموں میں بسر ہوتی تھیں۔ انہیں شہر یا کاروباری مراکز صرف کپڑوں اور چند معمولی ضروریات کی دیگر اشیاء کے لیے جانا پڑتا تھا۔ مویشی بانی کی زندگی میں مویشیوں کے ہمراہ رہنا لازمی ہوتا ہے۔ اس صورتِ حال نے بلوچی معاشرہ کو برسوں مدنیت سے دور رکھا۔ اس سماجی دور میں بلوچستان میں شہر اور قصبوں کی تعداد بھی نہایت قلیل تھی۔ ذرائع آمدرفت نہ ہونے کی وجہ سے قبائلی لوگ شہر جاناپسند نہیں کرتے ۔ نہ تو اس دور میں انہیں علاج کے لیے جانا پڑتا اور نہ ہی اشیا ئے خورونوش کے لیے۔ شہران کی ضرورت نہ تھی۔ البتہ سال بھر میں ایک مرتبہ لین دین کی ضرورت پیش آتی ۔ مویشیوں کا اون ، کھالیں اور بعض اوقات بھیڑ بکریوں کی فروخت کے لیے انہیں بازار کی ضرورت ہوتی ۔ اس ضرورت کے پیشِ نظر یا تو بازار اُن کے قریب پہنچ جاتا یاپھر انہیں جانا پڑتا ، تاکہ کپڑے ، برتن ، گھوڑوں اور اونٹوں کے لیے اسباب یا ہتھیار لے سکیں۔ ان کے معالج ساتھ ہوتے ۔ جڑی بوٹیوں یا مویشی کی کھال یاگرم سلاخ سے داغ دے کر علاج کیا جاتا ۔تعلیم کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔تعلیم صرف سواری اور تیرا ندازی کی دی جاتی جس میں لکھنے پڑھنے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ خط وکتابت بالکل نہیں ہوتی اور پیغام رسانی زبان کی جاتی ۔ اس صورتحال نے مدنیت کی رفتار کو نہایت ہی سست رکھا، یقیناًاس نے ادب پر بھی اثر ڈالا ہے ۔ بلوچی کلاسیکل ادب ہمسایہ زبانوں سے بہت ہی کم متاثر ہوا ہے اور اس نے اپنے طور پر اور ماحول کے مطابق ترقی کی ہے ۔
مظہر جمیل: جمالدینی صاحب‘ عموماً قبائلی معاشرہ مختلف قبائل سے مل کر وجود پاتا ہے لہذا ان قبائل کے مخصوص خصائل اور اوصاف اس معاشرہ کے لیے بنیادی خطوط فراہم کرتے ہیں۔ چونکہ بلوچستا ن میں آباد قبائل ایک ہی بیلٹ میں واقع ہوئے، اس لیے ان میں ایک تہذیبی اکائی پیدا ہوگئی ہے۔ قبائلی دوستیوں اور قبائلی دشمنیوں کے بلوچی ادب پر بھی اثرات مرتب ہوئے ہوں گے اور ان ہی سے بلوچی ادب میں EPICپوئٹری پیدا ہوئی ہوگی۔ اس سلسلے میں آپ کچھ فرمانا پسند کریں گے؟
جواب: قبائلی معاشرہ بذات خود ایک سماجی نظام ہے۔ اس کی ضرور تیں اپنی ہوتی ہیں اور تقاضے اپنے ۔ انہی کی بنیاد پر اس کی نشوونما ہوتی ہے۔ اس کے اپنے اقدار ، نیکی بدی کے اپنے اصول وجود میں آئے ۔ اس کی اپنی سیاسی تشکیل ہوئی۔ان کی پابندی نے اُسے بر قرار رکھا۔ ہر نظام انسانی بقاء کے لیے وجود میں آتا ہے اور جوں ہی اسے بقاء کے لیے مضر سمجھا جاتا ہے تو اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے جدو جہد شروع ہوتی ہے ۔ قبائلی ڈھانچہ بھی سماج کے انہی اصولوں کے مطابق تشکیل اور ترقی پاتا رہا۔ قبائلی نظام میں اجتماعیت کے اصول نہایت ہی اہم ہیں اور بہت ہیں۔ ان کی پابندی ہر قبائلی کے لیے لازمی ہوتی ہے۔ وہ چاہے یا نہ چاہے اسے اس کی پابندی کرنی پڑتی ہے ۔ ورنہ اس کے لیے اس نظام میں رہنا مشکل ہوجاتا ہے ۔قبیلہ بہت ہی بڑا ہوتا چلا گیا ۔ اس قدر بڑا ہوا کہ ہر قبیلہ اپنے آپ کو قوم کہنے لگا۔ چنانچہ اب بھی قبائلی علاقوں میں اگر کسی سے پوچھا جائے کہ تم کس قوم سے ہو تو اس کا مطلب بلوچ،پشتون یا ایرانی قوم سے نہیں بلکہ اس کا مطلب قبیلہ ہی ہوتا ہے۔ ہر قبیلے کی کئی ذیلی شاخیں ہیں اور یہ سلسلہ نیچے تک چلا جاتا ہے ۔ پھر ہر شاخ کا اپنا نام ہوتا ہے اور اس طرح سے فرائض میں بھی تبدیلی آتی ہے۔ قبائلی جنگوں میں ا س طرح کی صورتِ حال نہایت اہم ہوتی ہے ۔ مختلف صورت میں مختلف گروہوں کی جنگی پابندی کی جاتی ہے ۔ بڑے بڑے قبیلے وجود میں آئے جنہیں تمن کہا جاتا ہے ۔ تمن ترکی لفظ ہے اور تمن کی آبادی لاکھوں کی ہوتی ہے۔ یہ لازمی نہیں کہ قبیلہ یا تمن بنیادی طور پر ایک ہی نسل سے متعلق ہوں۔ قبیلہ ضروری نہیں ایک ہی خون سے مربوط ہو۔ تاریخی ادوار میں قبیلوں میں شکست وریخت ہوتی ہے۔ مختلف وجوہ سے ایک قبیلہ سے الگ ہو کر دوسرے میں شامل ہوجاتے تھے۔ اس طرح وفاداریاں بدل جاتی ہیں ۔ جس قبیلہ میں شمولیت ہوتی ہے اس کے لیے بھی دینی پڑتی ہے ۔ پھر مختلف قبائل کے اتحاد ہوتے ہیں ۔ جنگ کی صورت میں آپس میں اتحاد کر لیتے ہیں۔ ہر قبیلے کے اپنے مخصوص عادات اور چھوٹے چھوٹے اصول ہوتے ہیں۔ یعنی مہمانوازی ، پنا دینے اور دیگر ۔ قبائلی زندگی کے اہم اصول جنگ اور امن کے ہیں۔ فیصلے کے طریقے بھی مختلف ہوتے ہیں مگر مجموعی طور پر انتقام ، باہوٹ یعنی پناہ دینا ، مہمانی وغیرہ نہایت اہم ہوتے ہیں۔ ان بڑے بڑے اصولوں نے ان بلوچ قبائل کی قومی تشکیل میں مدد کی ہے ۔ ان تمام باتوں نے بلوچی ادب پر بڑے گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔ جابجا ان کا ذکر ہے اور مثالیں دی جاتی ہیں۔ انہی مثالوں اور واقعات سے بلوچی کے ادبی روایات قائم ہوتے ہیں جو بلوچی ادب کو دوسرے ادب سے ممیز کرتی ہیں۔
بلوچی قبیلہ کا نام اکثر قبیلہ کے افراد کے نام کا حصہ بن جاتے ہیں اور اس بات کا پتہ بتاتے ہیں کہ اس فرد کا تعلق کس قبیلہ سے ہے ۔ مگر وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ اور معاشی حالات اور معاشرہ کی تبدیلی کے ساتھ کئی جگہوں میں یہ صورت حال بدل گئی ہے۔ مثلاً ایران، بلوچستان اورپاکستان ، بلوچستان میں مکران کے بعض علاقوں میں جہاں برسوں سے لوگوں نے مویشی بانی ترک کر کے زراعت کو ذریعہ معاش بنایا ہے وہاں قبائلی حیثیت بد ل گئی ہے اور لوگوں کے نام کے ساتھ قبیلے کا نام نہیں ہوتا ۔ قبائلیت کے کمزور پڑنے کے ساتھ ساتھ صورتِ حال بدل گئی ہے۔
ٍ قبائلی انتقام جوئی اب تک برقرار ہے ۔ لکھے پڑھے لوگ بھی اس سے مبّرا نہیں ہوتے۔ قتل کا بدلہ ضروری سمجھا جاتا ہے اور یہ بدلہ قاتل کے کسی رشتہ دار یا اکثر قبیلہ کے کسی بھی فرد کو موقعہ پا کر قتل کر کے لیا جاتا ہے۔ مری ، بگٹی، زہری، مینگل اور بیشتر قبائل میں یہ صورتحال برقرار ہے۔
بلوچی قدیم شاعری میں قبائلی جنگوں کی طویل نظمیں بہت ہیں۔ شاعری اور شاعر کا ایک اہم کام یہ بھی ہوتا تھا کہ وہ جنگوں کی نظمیں تخلیق کرتے۔ ہر قبیلہ کے اس مقصد کے لیے مخصوص شاعر ہوا کرتے۔
مسلم شمیم۔ عبداللہ جان صاحب ، میر چاکر خان بلوچی قومیت کے سمبل رہے ہیں اور ہم نے سُنا ہے کہ بلوچی ادب میں ان کے دور میں بلوچی شاعری کو ترقی ہوئی تو اس سلسلے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟
جواب: میر چاکر خان بلوچی قومیت کے سمبل رہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ نقل مکانی کے دوران رند ہی وہ اہم قبیلہ تھا جس نے ان بلوچ قبائل کی رہنمائی کی جو اوّل تو سیستان سے مکران آئے اور بعدازاں مکران سے سیوی اور کچ ،گنداوہ کی آباد اورزر خیز زمینوں میں پھیل گئے ۔ چاکر خان سے قبل ان کے والد میر شیہک اور ان سے پہلے ان کے پردادا میر جلال خان ان قبائل کے نام آور سردار اور رہنما تھے ۔ سیوی اور کچھی کی زرخیز زمینوں پر پھیلنے کے بعد بلوچ قبائل زراعتی دور میں داخل ہوئے ۔ اس دور میں بلوچی ادب کی بہترین کلا سیکی شاعری تخلیق ہوئی۔ سیوی میں رند اور کچھی میں لاشاری قبائل آباد تھے۔ یہ دور پندرویں صدی کے اوائل میں تھا۔ اس دور کو قبائلی نظام کا عہد زریں سمجھا جاتا ہے۔ قبائلی سردار نے مستقل سکونت اختیار کی اور بے پناہ ریوڑ ، گھوڑوں ، اور اونٹوں کے علاوہ زرخیز زمینوں کے مالک تھے۔ کچھی اورگندا واہ کی زمینیں نسبتاً زیادہ زرخیز تھیں۔ بلوچ قبائل میں رندوں کی اہمیت زیادہ تھی اور میر چاکر ان کا مقبول ترین اور مشہور سردار تھا۔ انہیں لاشاریوں کی ایسی زرخیز زمینوں پر ملکیت پسند نہ آئی اور انہیں حاصل کرنے کا سوچ ہی رہے تھے کہ حالات نے یہ موقعہ انہیں فراہم کیا۔ گوہر نامی ایک دولت مند خاتون جس کے بے شمار مویشی تھے چراگاہوں کی تلاش میں لاشاریوں کے سردار میر گواہرام کی ہمسایہ ہوئی ۔ سردار گواہرام نے انہیں مال چرائی کی اجازت دی اور ہر طرح کی خاطر تواضع کی۔ بعد میں گواہرام نے اس حسین اور ثروت مند خاتون سے شادی کے لیے کہا۔ خاتون کو یہ بات ناگوار گزری اور ناراض ہو کر سردار چاکر رند کی پناہ میں گئی۔ لاشاریوں کو گوہر کی یہ حرکت پسند نہ آئی اور بالآخر انہوں نے بہانہ بناکر گوہر کی اونٹنیوں کے بچے ذبح کیئے۔ رندوں نے اپنی ہمسایہ کے اس نقصان کو برداشت نہ کیا اور برافروختہ ہوئے۔ آخر اُس طویل جنگ کی ابتداء ہوئی جو بلوچ تاریخ میں رند اور لاشاریوں کی تیس سالہ جنگ کے نام سے مشہور ہے۔قبائلی اتحاد کی صورت میں لاشاریوں کا پلّہ بھاری ہوا اور رندوں کو ایک جنگ میں بڑی شکست ہوئی۔ چاکر خان نے اس شکست کا بدلہ لینے کے لیے ترکوں کی حمایت حاصل کی۔ اس وقت ہرات میں شاہ حسین ترک کی حکومت تھی۔ کندہار میں ان کا فوجی گورنر اور جرنیل ذالنوں بیگ تھا۔ اس حمایت سے لاشاریوں کو تہس نہس کردیا گیا اور ان کے سرکردہ قبائلی کچھی کو چھوڑنے پر مجبور ہوئے ۔ ازاں بعد ترکوں نے چاکر خان اور اس کے رندوں کو بھی نکال باہر کیا۔ اور وہ پنجاب منتقل ہوئے ۔ اُس وقت ہندوستان میں سوریوں کی حکومت تھی۔ سندھ میں جام نظام الدین کی حکومت تھی جو بلوچی شاعری میں جام نِندہ کے نام سے یاد ہوا ہے۔
کلاسیکل شاعری تمام تران واقعات کی ترجمان ہے ۔ اس دور کی عشقیہ داستانیں شے مرید حانی، بی برگ گراناز اور شہد اد ماہنازبلوچی ادب کی جان ہیں۔ اس دور میں کئی اشعار ہیں جو مختلف رند اور لاشار سردار اور نام آور شخصیتوں سے منسوب ہیں۔ مثلاً چاکر خان ، گوۂرام ، میران وغیرہ ۔ مگر دراصل یہ بہت ہی قابل شعراء کی تخلیقات ہیں جو ان سرداروں سے متعلق واقعات کی وجہ سے اُن کے ناموں سے منسوب ہوتے ہیں۔
اس دور کی شاعری بلوچی کی بہترین شاعری تسلیم ہوتی ہے۔ بلوچی ادب کا زریں دور زمانہ قدیم میں رند، لاشار کا دور شمار ہوتا ہے۔
مظہر جمیل: میر نصیر خان بھی تو بلوچی قومیت کے نمائندہ رہے ہیں اور ان کا عہد بھی چاکر خان کی طرح مدنیت کا دور تھا اور اس میں سماجی ادارے بھی وجود آئے تو اس دور میں جو بلوچی ادب پیدا ہوا وہ یقیناًقبائلی عہد سے مختلف رہا ہوگا۔ آپ ہمیںیہ بتائیے کہ ان دونوں ادوار میں بلوچی زبان اور ادب کی ترقی کے لیے کیا کوششیں ہوئیں؟
جواب: بلوچ تاریخ میں میر نصیر خان دو گزرے ہیں ۔ سب سے اہم نصیر خان اوّل رہے ہیں۔ غالباً آپ کا مطلب نصیر خان اوّل ہی ہے۔ نصیر خان اوّل ، نصیر خان نوری کے نام سے مقبول ہوئے۔ انہیں عوامی مقبولیت بہت حاصل ہوئی۔ اس کی وجہ ان کی عوام دوستی اور عام رسائی تھی۔ نصیر خان نوری اٹھارویں صدی میں گزرے ہیں۔ نصیر خان نوری ہی نے دراصل بلوچ تاریخ میں ریاست کو مستحکم کیا۔ ریاستی نظام کے خدوخال انہی کے دور میں نمایاں اور واضح ہوئے۔ انہوں نے کئی اصلاحات کئے۔ سیاسی اور فوجی نظام کی داغ بیل ڈال دی۔ قلات کی ریاستی حکومت کو منظم اور مستحکم کیا۔ نصیر خان خود شاہ درانی کی طرح نادر شاہ گاچار کے جرنیل رہ چکے تھے۔ دونوں نے ان سے آداب واطوارِ حکومت سیکھ لی تھی۔ نصیر خان نے اپنی فوجوں سمیت احمد شاہ درانی کے ہمراہ پانی پت کی لڑائی میں شرکت کی تھی۔ نصیر خان نے تمام بلوچوں کو متحد کیا اوران کی ریاست نے بڑی حد تک افغانستان اور ایران کے بلوچوں کو اگر پوری طرح احاطہ نہ کیا تو کم از کم متاثر ضرور کیا۔ بلوچ قومیت کی بنیاد رکھی۔
نصیر خان کے دربار میں فارسی زبان سرکاری دفاتر کی زبان بنی۔ شہری نے بلوچ معاشرہ میں صورت لی۔ قلات مرکزِ حکومت تھا اور بلوچستان کا اہم ترین شہر ۔ فارسی کے عالم فاضل اور شعراء کا اس شہر میں گزر اور قیام ہوا۔ اس دور میں بلوچی کے بہت مشہور شاعر جام درّک گزرے ہیں۔ کہاجاتا ہے کہ جام درّک بہت عرصہ خان کے دربار سے وابستہ رہے۔ ان کی شاعری کا رنگ ڈھنگ اس کا غمازّ ہے۔ فارسی شاعری کا بلوچی شاعری پر اثر نمایاں ہے۔ جام درّک نے لیر لکل اشعار کہے ہیں جو فارسی غزل سے مشا بہت رکھتے ہیں۔ اس کے بعد فارسی کے اثرات بلوچی شاعری پر زیادہ ہوتے چلے گئے ۔ حتی کہ ملاّ شعرا کا دور شروع ہوا۔ مُلا بلوچی میں اس شخص کو کہا جاتا تھا جو لکھ پڑھ میں شدبدرکھتا ہوتا ۔ مُلاّ شعراء عربی اور فارسی پڑھے ہوئے تھے۔ مگر انہوں نے زیادہ تر عشقیہ شاعری کی ہے ۔ بلوچی شاعری اس دور میں بھی تبدیلی اورترقی کے باوجود اپنے روایات پر برقرار رہی۔ اس کا رنگ اپنا تھا اور طریقہ بیان منفرد تھا۔ مُلاّ شعراء نے کچھ دینی شاعری بھی کی ہے ۔ مگر ان کا انداز اپنا ہی تھا۔
مظہر جمیل: اس گفتگو کے نتیجہ میں جوبات سامنے آتی ہے بلوچی ادب کی روایات خاصی مضبوط رہی ہیں اور ان میں روشن خیالی ، حریت اور اخوت وغیرہ کی روایت بھی مضبوط بنیادوں پر استوار رہی ہے ۔لیکن اس اجمال کی تفصیل اگر جاننا چاہیں تو کیا آپ ہمیں بتائیں گے کہ ان روایات کی عملاً کیا صورتیں رہی ہیں اور کون کون شاعر ہیں جن کے ہاں ان روایت کا اظہار ملتا ہے؟
جواب: بلوچی زبان کے دو شاعر نوآبادیاتی دور میں روشن خیالی اور حریت پسندی کی علامتیں ہیں۔ دونوں شعراء کا تعلق مری قبیلہ سے ہے ۔ رحم مری اس دور کے شاعر ہیں جب مری قبائل انگریز نو آباد کاروں کے خلاف صفِ آرا تھے۔ رحم علی مری کی تمام شاعری مری قبائل کی ان جنگوں کی داستاں کو بیان کرتی ہے۔ رحم علی نے خود ان جنگوں میں شرکت کی تھی اور اس نے اپنی شاعری کو حریت کے جذبے کو اُبھارنے کے لیے نہایت ہی خوبصورتی سے استعمال کیا۔رحم علی کی شاعری آزادی کے متوالوں ، حریت پسندوں اور بہادر عوام کے ان کارناموں کا تذکرہ ہے جس میں آباد کاروں کے خلاف عوام نے علمِ بغاوت بلند کیا تھا۔ رحم علی کی شاعری رواں، خوبصورت اور غنائیت سے بھر پور ہے۔
دوسرا شاعر مست توکلی ہے ۔ اس کی شاعری محبت ، انسان دوستی ، سچائی کا پر چار کرتی ہے مست توکلی کی شاعری عوام کے دل کی گہرائیوں کی ترجمانی کرتی ہے۔ ان کے علاوہ بگٹی قبیلہ کے مشہور شاعر جوآں سال ہیں جن کی شاعری عوامی مسائل کو بیان کرنے کے علاوہ دینی تبلیغ اور قبائلی جھگڑوں کے خلاف تعلیمات دیتی ہے۔ مکران کے مشہور شاعر نے بلوچی شاعری کو بہت ترقی دی۔ وہ عشق و محبت اور رنگین بیانی کا سرمایہ ہے۔ مُلاّ فاضل نے جام درّک کی طرح بلوچی زبان وادب کوترقی دی ہے۔ صاحبِ طرز بن کر مُلاّ فاضل نے اپنے بہت پیرو کار پیدا کر لیے ہیں ۔ جدید شعراء میں کئی نوجوان ان شعراء سے متاثر ہیں۔ اس طرح ملک دینار نے بہترین شاعری کر کے بلوچی ادب کو بڑا سرمایہ دیا ہے۔
آخر میں ایک ایسے شاعر کا ذکر نہ کرنا بہت بڑی بے انصافی ہوگی جس نے ایک ہی طویل نظم تخلیق کر کے بلوچی ادب کی تاریخ میں روشن نام پیدا کیا ۔ یہ شاعر مُلاّ مزار ہیں۔ انگریز نو آباد کاروں نے بلوچ عوام کو اپنے جبر و تشدد سے زیر کرنے کے بڑے جتن کیے۔ ان میں سے ایک وہ واقعہ ہے جب کہ سبی میں انگریز اے۔ جی ۔ جی (ایجنٹ ٹودی گورنر جنرل) نے بڑے بڑے قبائلی سرداروں، نوابوں اورتمن داروں کو بُلا کر اپنی بگّی کھچوائی تھی۔ ان میں سے صرف مری کے تمن دار نے انکار کیا۔ باقی سب نے مل کر نہایت خوشی سے یہ کام سرانجام دیا۔ سرداروں نے فخر کرتے ہوئے ریذیڈنسی سے ریلوے اسٹیشن سبی تک بگّی کھینچ دی۔ مُلاّ مزار جو ایک عام بلوچ تھا۔ وہ محض قرآن پڑھا ہوا تھا جس کی وجہ سے مُلاّ کہا جاتا تھا ۔ مگر اس کے شعور اور جذبہ آزادی کو داد دیجئے کہ اس واقعہ کو بہ چشم خود دیکھ کر اس نے ایک طویل نظم لکھ دی جو اردو‘ بلوچی کے علاوہ سندھی اور براہوئی کے اشعار پر مبنی ہے ۔ اس نے ہر قبیلہ کے سردار یا نواب کی زبان میں اشعار تخلیق کیے اور اس کا مکالمہ پیش کیا۔ یہ بلوچی ادب کا نہایت ہی قیمتی سرمایہ ہے اور سرداری نظام اور برٹش تسلّط اور غلامی کا بہترین بیان ہے۔
مسلم شمیم: اب گفتگو اس مرحلہ پر آپہنچی ہے کہ آپ سے جدید بلوچی ادب کے بارے میں دریافت کیا جائے ، آپ فرمائیے کہ جدید بلوچی ادب کا آغاز کس طرح ہوا اور اس کے بنیاد ی عناصر کیا رہے ہیں؟
جواب: جدید ادب کا آغاز جدید تعلیم کے ساتھ ہوا۔ انیسویں صدی کے اوائل میں کوئٹہ اور دوسرے شہروں میں سکول کُھلے ۔ ان سکولوں میں بلوچ طلباء نے بھی تعلیم حاصل کی۔ شاعری کا ذوق رکھنے والے طلباء اردو شاعری سے متاثر ہوئے۔ مگر انہیں بلوچی شاعری سے نہ تو سروکار تھا نہ ہی اس کی اہمیت سے واقف تھے۔ چنانچہ ایسے نوجوانوں نے اردو میں شعر کہنا شروع کیا۔ ان میں محمد حسین عنقا سرِ فہرست ہیں۔ اسی طرح نواب یوسف علی خان مگسی نے بھی اردو اور فارسی میں شعر کہنا شروع کیا تھا۔ انہی کے دیگر ساتھی گل خان نصیر اور آزاد جمالدینی نے بھی اردو میں شعر کہے۔ محمد حسین عنقا اور گل خان نصیر نے تو کافی عرصہ تک اردو ہی میں شاعری کی اور اسی زبان میں شاعر مشہور ہوئے ۔ محمد حسین عنقا کا اردو مجموعہ ’’بانگِ رحیل‘‘ کے نام سے چھپا۔
یہ بلوچ نوجوان شعرا جو سیاسی فکر بھی رکھتے تھے اور ہندوستان کی تحریک آزادی سے متاثر تھے۔غالب، حالی اور اقبال سے بے حد متاثر ہوئے۔ چنانچہ ان کی اردو میں شاعری زیادہ تر سیاسی شاعری ہے۔
گل خان نصیر نے 1948سے بلوچی میں شعر کہنا شروع کیا۔ رفتہ رفتہ ان کی شاعری چمکی ۔ اور وہ پہلے جدید بلوچی کے شاعر روشناس ہوئے ۔ گل خان نصیر نے بلوچی شاعری کی طرف بہت لگن سے کام لیا ۔ انہوں نے کلاسیکل شاعری کا مطالعہ کیا ۔ اس کے علاوہ ترقی پسند اردو ادب سے بے حدمتاثر ہوئے۔ انہوں نے ابتداء ہی سے شاعری کو اپنے سیاسی افکار کی تبلیغ کا ذریعہ بنایا ۔ ان کے فورً بعد یعنی 1952 – 53ء میں آزاد جمالدین بہ حیثیت بلوچی شاعر کے نمودار ہوئے۔ آزاد جمالدینی کی شاعری بہت ہی مقبول ہوئی ۔ محمد حسین عنقانے بھی انہی ایام میں بلوچی شاعری شروع کی تھی۔
1950ء کو بلوچی ادب کی تاریخ میں پہلا بلوچی ماہنامہ ’’اومان‘‘ کراچی سے شائع ہونا شروع ہوا۔ اس طرح جدید بلوچی ادب کی ابتداء 1950ء میں ہوئی۔ ’’اومان ‘‘ میں بلوچی افسانے چھپنے شروع ہوئے۔ 1956ء سے ’’بلوچی‘‘ کے نام سے دوسرا بلوچی ماہنامہ کراچی سے چھپنے لگا۔اس کے ایڈیٹر آزاد جمالدینی تھے۔ آزادجمالدینی نے نہایت ہی انہماک سے نہایت ہی اعلیٰ پائے کا بلوچی ماہنامہ شروع کیا تھا۔ اس ماہنامہ نے بلوچی ادب کو بے حد فروغ دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے بلوچی شاعر ، افسانہ نگار، ڈرامہ نویس اور مقالہ نگار پیدا ہوئے ۔ جدید شعرا کی اکثریت نے اپنی تخلیقات کی ابتدا ماہنامہ ’’بلوچی‘‘ سے کی تھی۔ اس رسالہ نے بلوچی میں ترقی پسندادب کی بہت ہی حوصلہ افزائی کی ۔اس میں سامراج ، استحصال ، سرمایہ داری، سرداری نظام ، جرگہ سسٹم کے خلاف مواد شائع ہوتا تھا۔ اس نے قوم پرستی ، وطن دوستی، انسان دوستی، ترقی اور خوش حالی کے اقدار اور موضوع کو بلوچی ادب میں رواج دیا اور مقبول بنایا۔
گل خان نصیر اور آزاد جمالدینی کی شاعری اور نگار شات نے صحیح ترقی پسند ادب کی تخلیق کی جانب نوجوان شعراء اور قلم کاروں کی راہنمائی کی ۔ آج بلوچی ادب میں جو ترقی پسند انہ رجحان ہے وہ اسی دور کے ادیبوں کی محنت کا نتیجہ ہے۔ بلوچی ادب اس پر فخر کر سکتا ہے کہ اس کا دامن رجعت پرستی کے لیے نہایت ہی تنگ ہے۔
مظہر جمیل: بلوچی ادب میں نثر شروع ہوئی اور اس کا رُخ اور موضوع کیا رہے ہیں؟
جواب: جدید بلوچی ادب پیدا ہی اس دور میں ہوا جب ملک میں ترقی پسند ادبی تحریک اپنے عروج میں تھی۔ جدید بلوچ شعراء کے سر خیل گل خان نصیر نے ابتداء ہی سے ایسی شاعری شروع کی تھی جس میں مقصدیت تھی۔ گل خان نصیر نے روزِ اوّل ہی سے شاعری کو اپنے مفلوک الحال عوام کو جگانے کا ذریعہ بنایا۔ گویا انہوں نے شاعری میں مقصدیت کی بنیاد ڈال دی ۔یوں بھی تو بلوچی شاعری کی تاریخ با مقصد شاعری کی رہی ہے۔ بلوچی کلاسیکل شاعری خود بھی بامقصد شاعری کا نمونہ ہے ۔ مُلاّ مزار نے اس روایت کو نہایت ہی خوبصورتی سے ترقی دی۔ ’’لاٹ بگّی ‘‘کی نظم لکھ کر انہوں نے آنے والے شعراء کو ادب اور شاعری کے مقاصد سے آگاہ کیا۔ بلوچی شاعری کی ایک خصوصیت شروع سے یہ رہی ہے کہ اس میں قنوطیت، رجعت پرستی اور یاسیت کے لیے جگہ بہت کم رہی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بلوچ معاشرہ میں مذہبی جنونیت کبھی نہیں رہی ہے۔ اس کی وجہ سے بامقصد شاعری جو عوام کو ترقی کی جانب راہ سُجائے۔ اس کے لیے حالات ساز گار بنے۔
1951,52ء میں انجمن پسند مصنفین کی ایک شاخ کوئٹہ میں قائم ہوئی۔ اس نے مختلف زبانوں کے شعراء اور ادیبوں کو اکٹھاکیا۔ اس میں اردو کے شعراء بھی شامل تھے۔ کامل القادری، انجم قزلباش اس کام میں پیش پیش تھے۔ انجمن کے اس شاخ کے زیرا ثر بلوچی ، براہوئی اور پشتو کے اپنے اپنے انجمن بھی تشکیل دیئے گئے۔ اس طرح ترقی پسند ادبی تحریک کے لیے زمین تیار کی گئی۔ بلوچی جدید ادب کی پیدائش بھی اس دور میں ہوئی جب ترقی پسند ادبی تحریک نے زور پکڑا تھا۔
گل خان نصیر کا مجموعہ اشعار (پہلا بلوچی مجموعہ اور جدید بلوچی شاعری کی پہلی کتاب) 1952ء میں شائع ہوا۔ اس کے ساتھ ہی آزاد جمالدینی کے ارتقاء کا ایک کتابچہ ’’مستین توار‘‘(للکار ) اردو ترجمہ کے ساتھ شائع ہوا ۔ مترجم انجم قزلباش تھے۔ ان دو شاعروں اور ان کے کلام نے آنے والے نوجوان شعراء کی صحیح سمت کی طرف راہنمائی کی ۔ اس طرح بلوچی زبان میں ترقی پسندادب تخلیق ہونا شروع ہوا۔ اس کے بعد جب آزاد جمالدینی نے 1956ء میں کراچی سے ’’بلوچی ‘‘ کے نام سے ایک ماہنامہ نکالا تھا ۔ اس ماہنامہ نے ترقی پسند ادب کی ہر طرح سے پرورش کی اور اس کے لیے فضا تیار کی۔ اس مجلّہ میں بلوچی کے شہہ پاروں کے علاوہ عالمی ترقی پسند ادب سے تراجم شائع ہوئے۔ ناظم حکمت ، ابو القاسم لاہوتی، نذرالاسلام ، پشکن ، گور کی ، ٹالسٹائے، کرشن چندر ، چیخوف ، سے تراجم شائع ہوئے۔
ان کوششوں نے نوجوانوں کے شعور کو جلا بخشا اور روشن فکری کو بلوچی ادب میں سمو دیا۔ اس کے اثر میں ترقی پسند ادب کا جو کچھ بھی اردو میں دستیاب تھا اس کا بہت ہی ذوق شوق سے مطالعہ ہوا۔ اس کے ساتھ ہی اور اس کے زیراثر مارکسی اور سائنسی لٹریچر کے مطالعہ کی رسم پڑی۔ زندگی کے نامساعد حالات ، مسائل اور جبرواستبداد کے رویہ اور طریقوں نے بلوچی نوجوان کو انقلاب کا راستہ بتایا۔ گل خان نصیر اور آزاد جمالدینی کی انقلابی شاعری اور خیالات نے نواجوان دانشوروں کی راہنمائی کی۔
اس کے ساتھ ہی بلوچی ادب کا حجم بھی بڑھنے لگا۔ گل خان نصیر کی شاعری میں تنوع تھا۔ اس نے بلوچی نظم کے نئے نئے نمونوں کو رواج دیا۔ بلوچی شاعری جو قافیہ ردیف کی پابندنہ تھی۔ جدید بلوچی نظم نے اس پابند کیا۔ غزل نے بلوچی شاعری میں جنم لیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے غزل نے بڑی تیزی سے ترقی کی۔ اور ایک جدید صنف کی صورت میں بلوچی شاعری کا حصہ بنی۔ آزاد جمالدین نے ’’مستیں توار‘‘ میں ایک پولش نظم کا ترجمہ کر کے آزاد شاعری کی بنیاد رکھ دی۔ اسی طرح بلوچی میں قطعے اور رباعی تخلیق ہو نا شروع ہوئے۔
اردو میں ترقی پسند ادب کی تحریک نے بلوچی کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے ۔ اردو کے ترقی پسند شعراء بلوچ ادیبوں میں بہت مقبول ہوئے۔ فیض احمد فیض ، سردار جعفری، مجاز ، جوش اور بعد میں جیب جالب سب سے زیادہ مقبول شاعر ہیں۔ اسی طرح افسانہ میں کرشن چندر ، احمد ندیم قاسمی ، عصمت چغتائی اور خواجہ احمد عباس سب سے مقبول افسانہ نگار ہیں۔ ان سے تراجم بلوچی میں کئے گئے۔
بلوچی ادب اور شاعری میں نئے نئے خیالات داخل ہونے لگے۔ اس سے پہلے سرداری نظام ، جرگہ ، ایف سی آر کے خلاف لکھا جاتا تھا۔ یا پھر انگریزی دو رکے مظالم اور اس دور میں سرداری اور جرگہ کی جس طرح سے حمایت اور حفاظت ہوتی تھی ان مسائل کا ذکر ہوتا تھا۔ اب فکر کا دامن وسیع ہونے لگا۔ جاگیرداری ، سرمایہ داری، سامراج ، طبقاتی کش مکش،امن اور بین الاقوامی مزدور تحریک جیسے عالمی مسائل کے بارے میں خیالات کا اظہار کیا جاتا۔ گل خان نصیر نے ان مسائل پر بہت کچھ لکھا۔ آزاد جمالدینی کی نظم پور یا گر ( مزدور) اور ’’ماامن لوٹن ‘‘ (ہم امن چاہتے ہیں) اس کی بہترین مثالیں ہیں۔ خلائی سائنس کی ترقی کی وجہ سے سپوتنک کے خلائی سفر کے بارے میں گل خان نصیر کی نظمیں مشہور ہوئیں۔ ان خیالات اور موضوع کو بلوچی افسانہ اور ڈرامہ میں بھی مقبولیت ہوئی۔ بلوچی ادب ان تمام باتوں کے باوجود اپنے ماحول سے کٹا نہیں۔ ان تمام مسائل کو بلوچی معاشرہ اور سماج کے ساتھ نہایت خوبصورتی سے جوڑا گیاہے۔
بلوچستان کو ون یونٹ میں شامل کرنے اور ازاں بعد اس کے نتیجے میں قومی جبر کی وجہ سے جو قومی اُبھار آیا اور اس کے نتیجہ میں اس اُبھار کو شدّت سے کئی مرتبہ دبا یا گیا۔اس دوران بلوچی ادب میں قوم پرستی کے موضوع پر بہت شاعری ہوئی ۔ جمہوریت ، سیاسی آزادی، سماجی انصاف ، قومی برابری، قومی تحریک آزادی ، بلوچی ادب کے موضوع بنے۔ ادب کے موضوع اور حجم میں اصناف کے ساتھ ساتھ نئے نئے اور نوجوان شاعر اور ادیب پیدا ہوئے۔ انہوں نے اسی سمت بلوچی ادب اور شاعری کو مزید ترقی دی۔ عطاشاد ، اکبر بارک زئی، بشیر بیدار، غنی پرواز، جی۔ آر۔ مُلاّ ، مبارک قاضی وغیرہ جیسے انقلابی فکر کے علم دار پیدا ہوئے ۔ بلوچی شاعری نے بہت ہی ترقی کی ۔ آزاد شاعری اور غزل دونوں اصناف بہت مقبول ہوئے۔
بلوچی ادب میں پوری طرح بلوچ معاشرہ کا پر تو ہے ۔ بلوچی ادب میں بلوچ عوام کے مسائل پوری طرح اُٹھا ئے گئے ہیں اور ان کے حل کا راستہ واضح طور پر بیان کیا گیا ہے ۔ بلوچی ادب نے ترقی پسند تحریک کے زیرِ اثر اور راہنمائی میں پرورش پائی ہے اور ترقی کی ہے۔ اس میں روحِ عصر کو بلوچ سماج اور عوام کے مسائل کے ساتھ ٹھیک طرح مربوط کیا گیا ہے۔ بلوچ ادیب نہایت حوصلہ ہمت اور اعتماد کے ساتھ ، دنیا کے دیگر ترقی پسند ادیبوں کے ساتھ قدم ملائے ہوئے چل رہے ہیں اور بلوچ عوام کی ایک پُر امن ، روبہ ترقی اور خوش حال سماج کی تعمیر کی جدو جہد میں نہایت ذمّہ داری سے راہنمائی کر رہے ہیں۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے