ٹوٹے پروں کو سمیٹے
پیغمبروں کی روح حلول کر کر کے جبران نے اپنی نظم کہی
وہ نظم جو وقت گذشتہ اور فردا کے قصوں کا مظہر ہے
جس میں حال کا شائبہ تک نہیں
جہاں وقت نے اپنا آپ دریا برد کر کے لمحوں کی گنتی کو رواں کر دیا
جب لمحے رواں ہوجائیں تو وقت ساکت ہوجاتا ہے
جبران جب گویا ہوا تو دیو مالا کے سارے کردار، اپنے کرداروں سے لوٹ آئے
زندگی کے پھیکے پڑتے کینوس کے رنگوں کو اجالا کر کے۔۔۔ وجد میں گم
تم تو لفظوں کے جال میں جذبات کو قید کر کے زندہ کر گئے
نظم کی صورت لفظوں کو جنم دیتے دیتے وہ خوبرو خدا بن بیٹھے
جسے تپ دق کھا گئی
تم شاعری کے کاریگر نہیں
لفظ، تمہاری راہ تکتے رہتے تھے کہ کب تم آ کے ان میں مسیحی سانسیں پھونک دو۔۔۔
اے تخلیق کے مسیحا!
اب لفظ بکتے ہیں مرھم نہیں ہوتے
سکوت کے وہ لمحے جو تم تراش گئے تھے، وہ خواب ہوئے۔۔۔۔
لفظوں کے گلے سوکھ گئے
تمہیں پکارتے پکارتے
ڈراؤنے خوابوں سے ان کی بینائی زائل ہوگئی۔۔۔ اور جبران نے اپنی نظم کہی

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے