ہزیمتوں کے اس لعین دور میں
ہاں شور شوں کے بے پناہ، بے اماں سے دور میں
کسی دکھی کی آس گر نہ بن سکو
کئی دریدہ دا منوں کے ساتھ گر نہ چل سکو
بے نْور ہوتی آنکھ میں دیا اگر نہ جل سکے
بے سَمت ہو کے ڈولتی خِرد کی رو کو جسم گر نہ دے سکو
بھلا ہی تْم کیے چلو
نگر نگر بھلے کی تْم صدا ئے نودئیے چلو
سکون کی تلاش میں بھٹکتے اِک غزال کو
ہاں شہرِ پْرمَلال کو
فریبِ صد نظر کے دائروں میں اْلجھے قلبِ بے مراد کو
اْس اِ ک نِگاہِ شوق کو جو صبح کو ترس گئی
اِ ک عکس بے خیال کو جو رنگ رنگ اْجڑ گیا
وہ ناؤ جو کہ ٹھہرے پانیوں میں پل میں ڈوب کر بِکھر گئی
وہ ہاتھ جو بلند ہو رہے تھے سب وہ پیشتر ہی سب جھٹک دئیے گئے
کبھی نہ کچھ بھی ہو سکا تھا اِن سبھی کے واسطے
بھلا ہی کیے تم چلو
نگر نگر بھلے کی تم صدائے نودئیے چلو

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے