ایک لمحہ بھی میں اوجھل نہیں ہونے دیتا
یعنی میں آج کبھی کل نہیں ہونے دیتا

روز کے روز بدلتا ہوں میں خود اپنا جواز
زندگانی میں تجھے حل نہیں ہونے دیتا

شاہ سے میرا قضیّہ ہے پْرانا ، اور میں
اْس کی مرضی سے اِسے حل نہیں ہونے دیتا

اے مرے پیٹ کی چکی میں پسے میرے دِن
ظْلم یہ ہے میں تجھے کل نہیں ہونے دیتا

دو گھڑی تجھ سے تری بات چھْپا لیتا ہوں
پر میں یہ جبر مسلسل نہیں ہونے دیتا

بند رکھتا ہوں تری یاد پہ دَروازہ ء دل
ہاں مگر اِس کو، مقفّل نہیں ہونے دیتا

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے