محترم ایڈیٹر
آپ پر سلامتی ہو!۔
ٍ حسبِ روایت دسمبر کا سنگت معمول کے مطابق دسمبر کو ملا۔ جسے پاکر سر تا پا سپاس ہوں ۔ ہر ماہ سنگت کا شوق کے ساتھ انتظار رہتا ہے۔ یقین جانیے نشے کے مانند دماغ پر سوار رہتا ہے۔ جب تک نیا سنگت نہ پڑھیں نشہ دماغ سے اُترتا نہیں ۔ سنگت پڑھتے ہی دماغ میں سکون محسوس ہوتا ہے ۔ ویسے بھی ہم دُوردراز دیہاتی قارئین کا ادبی نشہ ایسے ہی ماہنامہ ادبی رسالوں سے پورا ہوتا ہے ۔ ہمارے نصیب میں آئے دن نئی نئی کتابیں پڑھنا کہاں ہے ۔ اور پھر یہ مہنگائی کی مصیبت علیحدہ ہمارے لیے عذاب ہے کہ پبلشرز صاحبان 200روپے کی کتاب کی قیمت 800کھ دیتے ہیں توایسے عالم میں ہم جیسے نیزگار قارئین کی قسمت میں نئی کتاب پڑھنا پیلاج داس کے پیٹ میں گائے ماتا کی گوشت نے ڈالنے کے مترادف ہے ۔خیر سنگت جب معمول نوبہ نو تحاریر اور اپنی تمام رنگ و رعنا ئیوں کے ہمراہ میرے ہاتھوں میں ہے ۔ یہ آپکی شب وروز ادبی عشق کاثمر ہے کہ سنگت سالہا سال سے ادبا کی ادبی تشنگی بجھانے میں انتہائی اہم اور خاص کردار ادا کر رہا ہے ۔ جس کے لیے آپ محترم میر ا خراج تحسین اور لاکھوں آفرین کے لائق و مستحق ہیں۔
معمول کی طرح سنگت کا ٹائیٹل لاجواب ہے۔ گودی گرانا ز کو سلام پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے اتنی جفا کشی سے ماما کے نورانی چہرے کی منظر کشی کی ہے۔شونگال ادا ریہ پڑھ کر لطف اندوز ضرور ہوا ہوں۔ لیکن تشنگی یا خمار باقی رہی۔ ایسے معلوم ہوتا ہے کہ آپ عشاق کے قافلے کی سیریز میں کامریڈ کا سٹروپر علیحدہ کتاب لکھنے کے موڈ میں ہیں ۔ بلوچستان اور سبط حسن پر آپ کی تحریر بہترین ہے ۔بہت مزا آیا بلکہ دل کہہ رہا تھا کہ ابھی کوئٹہ یا لاہور جاؤں اور سبط حسن کی تمام کتابیں لیکر پڑھوں ۔ لیکن پھر وہی نیز گاری آڑ ے آرہی ہے۔ فی الحال جمالدینی ،محترم امان اللہ گچکی صاحب جتنا بڑا نام اتنا بڑا کام ۔ ایک ہی مضمون میں دریا کو کو زے میں بند کردیا ہے۔ اور ساتھ ساتھ مجھ جیسے قاری کا دماغ بھی گھما دیا ہے۔ پورا مضمون اشاروں کنایوں میں تحریر فرمایا ہے۔
پروفیسر عبداللہ جمالدینی پر پروفیسر گل بنگل زئی کا براہوئی میں مضمون لائق تعریف ہے۔ کہ اس میں موصوف نے ماما کی زندگی ،ان کے فکر اور بلوچی زبان کے بارے میں جدوجہد کو بھر پور انداز میں خراج تحسین پیش کیا ہے۔ جس کے لیے گل بنگلزئی بھی مستحق آفرین ہیں۔
بلوچستان میں ترقی پسند ادیبوں کا سرخیل ۔ میر بلوچ خان کی تحریر بھی لائق تعریف ہے۔ انہوں نے ماما جان کے ساتھ ساتھ برصغیر کے ان چیدہ چیدہ اکا برین کو یا د فرمایا ہے ۔ جنہوں نے انگریز استعمار یت ظلم وجبر استحصال ،سیاسی سماجی اور معاشرتی ناانصافیوں کے خلاف لوگوں میں شعور بیدار کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اور فرسودہ نظام کے خلاف ترقی پسندانہ فکرو فلسفہ کو وسعت دینے میں اپنی زندگیاں وقف کردیں۔
آگے بڑھتے ہیں ’’سائیں جی ! آپ خوش قسمت نکلے ‘‘۔ قلاخان خروٹی کا یہ تحریر اندازِ بیاں کے حوالے سے بہت ہی دلچسپ ہے۔ از میر خان مندو خیل ۔ محترم منور خان مندوخیل کی تاریخی پس منظر میں تحریر بہت ہی معلوماتی ہے۔ ’’شاہ لطیف صوفی نہیں۔ یوٹو پیائی فلا سفر ہے‘‘ ۔ آپکی تحریر کیا کہیے ۔ آپکے انداز بیان اور فکرو فلسفہ کا تو جواب ہی نہیں ہے کیونکہ آپ اپنے ہی انداز میں سوچتے ہیں غور فکر کرتے ہیں پھر نتیجہ اخذکر کے سکتے ہیں۔ بہرحال اس دور میں بھی لاشعوری کی وجہ سے جس انداز میں شاہ صاحب کے فکروفلسفہ کا ستیا ناس کیا جارہا ہے ۔ اس اہم مسئلے کو آپ نے خوبصورت اور فکر انگیز انداز میں بیان کر کے دریا کو کوزے بند کر دیا ہے۔
عبداللہ ملک کی تاریخ نویسی پر آئی اے رحمن کا تاریخی حوالے سے ایک بہترین کا وش ہے۔ غنی پرواز منی پت۔ محسن بالاچ کا انتہائی مختصر اندازمیں غنی صاحب کو خراج تحسین پیش کیا ہے ۔لینن کا نظریہ جمالیات ۔ جاوید اختر صاحب کا ہمیشہ کی طرح بہت ہی فکر انگیز کاوش ہے۔
نظر ضمیر نے میر گل خان نصیر پر مختصراظہار خیال کیا ہے۔نا کو فیض محمد بلوچ کی یاد یں ، ڈاکٹر عطااللہ بزنجو صاحب کی تحریر بہت ہی اچھی کاوش ہے۔ اپنے فنکاروں کو ضرور یاد کرنا چاہیے ۔ کیونکہ یہی لوگ ہمارے دکھوں کو خوشیوں میں بدلنے کا اہتمام کرتے رہے ہیں ۔ڈاکٹر سے دست بندی ہے کہ اسے مزیدآگے بڑھائے ۔ بلوچستان میں معدنیات مائنزمزدور ۔اعظم زرکون ایڈوکیٹ ۔ واہ بھئی واہ ایڈوکیٹ صاحب سلام ہے آپکو ۔ خدارا ایسے دُکھتی رگوں پر مزید ہاتھ ڈالتے رہیے گا تا کہ اصل منحوس چہرہ بے نقاب ہوسکے۔ محترمہ عابدہ رحمن کی کتاب پر تبصرہ اور حسبِ معمول سنگت کے بکھرے موتی بہت ہی بہترین ہے۔ اور آئندہ بھی ان سے یہی توقع ہے کہ ہم سب کا حوصلہ بڑھاتی رہیں گی ۔ اس مرتبہ سنگت پوہ زانت کی تشنگی باقی رہی ہے ۔
اب آتے ہیں شاعر وں کی پرستان میں۔ افضل مراد، ابرار احمد ،فدا موسیٰ ، عیاض محمد عیاض ، مندوست بگٹی ، بلال اسود ، ظہیر ظرف ، قندیل بدر، فرزانہ رفیق، انجیل صحیفہ ، لطیف الملک بادینی ، انیس ہارون اور گودی نوشین قمبرانی ان شعرا کی شاعری دل کے تاروں سے چُھو کر گزری ہے۔ پر لطف پر اثر اور فکر انگیز خیالات پر مبنی انکی شاعری نے سنگت کے حسن ورعنائی کو مزید بڑھا یا ہے۔
رواں ماہ ربیع الاول کا ہے۔ اس نسبت سے اپنا ایک بلوچی نعت ارسال کر رہا ہوں۔ واثق امید ہے کہ جگہ دینے کی زحمت فرمائیں گے مجھے شدت سے انتظار رہے گا۔ میری جانب سے آپ کو اور سنگت کے تمام لکھاریوں کو درجہ بدرجہ سلام۔
محمد رفیق مغیری، بھاگ ۔بلوچستان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایڈیٹر ڈاکٹر شاہ محمد مری ماہنامہ سنگت کوئٹہ
اسلام علیکم!۔
اللہ کرے آپ سب خیریت سے ہوں بہت عرصہ گزر ا کچھ نہیں بھیجا۔ سنگت کو کبھی دیکھتا ہوں سنگتی یاد آجاتی ہے ، جی چاہتا ہے کہ سنگت کو کچھ لکھوں ، اس لیے آج لکھنے بیٹھاہوں، امید ہے کہ سنگت کی طرف سے سنگتی ملے گی جی ہاں ایک غزل ارسال ہے اسے سنگت کی سپرد کردیں۔
بڑی نوازش ہوگی۔
ہم ڈاک پر بھیجنے والے ہیں ہمارے پاس ای میل کی سہولت نہیں اس لیے ہم مجبور ہیں کہ اپنے اشعار و مضامین لفافے میں ڈال کر انہیں بذریعہ ڈاک ارسال کردیں۔ ہمارے یہاں انٹرنیٹ بہت کمزور ہے ۔علاقہ بہت پسماندہ ہے لیکن ادبی حوالے سے ہمارا عزم و ہمت جوان۔
جاوید زھیر۔ پیشکان

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے