مصنف: عبدالستار پردلی
مترجم: شاہ محمد مری

اِس وقت سنگت اکیڈمی آف سائنسز کے زیر اہتمام سنگت تراجم سیریز کے حوالے سے بلوچی ناول ’’ سوب ‘‘ کا اردو ترجمہ ہمارے پیش نظر ہے جو ’’ گندم کی روٹی‘‘ کے نام سے شائع کی گئی ہے۔ اس کے مترجم ڈاکٹر شاہ محمد مری ہیں جن کی تحقیق ، تخلیق اور تراجم پر مبنی بہت ساری کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں ۔ویسے تو سنگت تراجم سیریز میں بین الاقوامی ادب سے متعلق شاہ کار تخلیقات ہی کو بلوچی میں منتقل کیا جارہا ہے لیکن بلوچی ناول ’’ سوب‘‘ کا اردو ترجمہ اس بات کی غماز ہے کہ ادارے نے اس ناول کی اہمیت کے پیش نظر اسے اردو میں منتقل کیا ہے۔ کیا اچھا ہو کہ معیاری بلوچی تخلیقات کو انگریزی زبان میں بھی منتقل کرنے کی طرف توجہ دی جائے۔ جس سے ہمارے ادبی ورثے کی تشریح و ترویج ہوسکے۔
بلوچی ایک وسیع اور قدیم زبان کے ناطے بلوچستان کے علاوہ سندھ اور پنجاب میں کثرت سے بولی اور سمجھی جاتی ہے جبکہ ایران ، افغانستان، روس اور خلیجی ممالک میں بھی بلوچی بولنے والوں کی ایک اچھی خاصی تعداد موجود ہے۔اس کے علاوہ امریکہ، یورپ، افریقہ اور دیگر ممالک میں بھی بہت سے بلوچ خاندان موجود ہیں۔ جنہیں اپنی مادری اور قومی زبان سے محبت ہے یہی وجہ ہے کہ وہاں سے بھی قومی سوچ اور فکر رکھنے والے لوگوں کی طرف سے وقتاً فوقتاً تخلیقات اور نگارشات کی صورت چیزیں سامنے آتی رہتی ہیں۔ کیونکہ ایران ہو یا افغانستان ، تاریخی جبر کے ہاتھوں مصنوعی دوریوں سے دلوں کے رشتے اور محبتیں ختم نہیں ہوجاتیں۔ ہلمند افغانستان کے عبدالستار پردلی اِسی سوچ اور فکر سے وابستہ ایک ایسے ادیب اور دانشور ہیں ۔ جنکی علمی، ادبی، سیاسی اور فکری جدوجہد کی ایک لمبی تاریخ ہے۔
ناول ’’ سوب‘‘ جسے کچھ لوگ ناولٹ قرار دیتے ہیں ۔ لیکن ہمارے خیال میں یہ ہی ہے جس میں وہاں کے معاشرے اور زندگی سے متعلق ایک حصے کی اچھی عکاسی کی گئی ۔ جہاں ایک ناول کے حوالے سے پوری لوازمات بھرپور انداز میں نظر آتی ہیں ۔ ظلم ، جبر، ناانصافی کے حوالے سے بھرپور مزاحمت بھی موجود ہے۔
یہ خوبصورت ناول عبدالستار پردلی کی فکر اور سوچ پر مبنی ایک ایسی تخلیق ہے جس کی اہمیت کے پیش نظر اسے بلوچی سے اردو میں منتقل کیا گیا ہے۔
’’ گندم کی روٹی‘‘ کی یہ دوسری اشاعت ہے ۔2003 کی اشاعت میں مترجم کے پیش لفظ سے یہ اقتباس اس حوالے سے آپ کی معلومات میں اضافے کا سبب ضرور بنے گا۔
’’ پاکستان میں 1978 کے بعد دس پندرہ برسوں میں جن لوگوں کی سانسیں کا بل ریڈیو کے اعلانات کے ساتھ ساتھ تہہ و بالا ہوتی رہیں۔ یہ ناولٹ اُن لوگوں کی اپنی لکھی ڈائری ہے۔ جسے ہلمند کے بلوچ عبدالستار پردلی نے ترتیب دینا تھا۔ یہ ناولٹ بلوچستان میں طبقاتی سیاست کرنے والوں کے ہاتھ اُن لوگوں کے خلاف ایک مہلک ہتھیار ہے جن کا دعویٰ رہا ہے کہ ’’ بلوچستان میں طبقات نہیں ہیں۔ مدہم ہیں۔ غیر واضح ہیں اور یہاں صرف سرداروں کی سرپرستی میں قومیتی سیاست ہوسکتی ہے‘‘۔
’’ یہ ناولٹ بلوچ انقلابی کے لیے حکمت عملی اور داؤ پیچ کا مینوئل ہے۔ کسانوں، چرواہوں کی ایکتا، تنظیم، وسیع النظری کا آئینہ ہے۔ سردار، زوردار کے جور و جبر کی گہرائی کا بیانیہ ہے بے رحمی، نا ترسی کی تفسیر ہے۔ لالچ ، استحصال ، درندگی اور جبر و جور کا مرثیہ ہے‘‘۔
پورے وسطی ایشیا کے منطقے میں ما قبل سرمایہ داری کی معاشی سماجی اور سیاسی منظر نگاری ہے‘‘۔
بلوچی میں لکھا گیا ’’ سوب‘‘ (جیت) خوبصورت ، رخشانی لہجے میں زبان و ادب کے لیے ایک خوبصورت اضافہ ہی تو ہے ۔ جہاں ایک غریب نواجوان دلمراد ، حاجی خان کے ہاں بزگر ہے اور اُس کی زمینوں پر کام کررہا ہوتا ہے ۔ اُس کا والد خان کے قرض کا بوجھ اٹھاتے ہوئے فوت ہوچکا ہے ۔ ماں، بہن اور دو چھوٹے بھائیوں کی زندگیوں کو بحال رکھنے، کپڑے اورجوتے فراہم کرنے اور گندم کی ایک روٹی تک دینے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ اسی بے بسی میں اُس کی چھوٹی بہن جس کی عمر تقریباً 13 سال ہے، اُسے زبردستی ایک70سال کے بوڑھے سے بیاہنے پر مجبور کردیا جاتا ہے۔ اسی کشمکش میں جب خان کے کارندے دلمراد اور اُس کے بھائی کو شدید زدوکوب کرتے ہیں۔ تب اُن کی بہن شہ پری اپنی پندول سے ایک چاقو نکال کر اُسے اپنے دل کے آرپار کرکے اپنی زندگی ختم کردیتی ہے۔ ستم بالائے ستم خان اور وہاں کے حاکم اپنی چال بازی سے دلمراد اور اُس کے بھائی کو مورد الزام ٹہراتے ہوئے انہیں جیل بھیج دیتے ہیں۔
جیل میں دِلمراد کی ملاقات گمشاد سے ہوتی ہے جو اپنے سیاسی اور نظریاتی حوالے سے چودہ سال کی سزا کاٹ رہا ہوتا ہے ۔گمشاد انقلابی تحریک سے وابستہ ایک ایسا نوجوان ہے جو قیدیوں کو عملی اور فکری حوالے سے پڑھا رہا ہوتا ہے ۔ دلمراد اور اس کا بھائی گمشاد کی فکری اور سیاسی نظریات سے متاثر ہوتے ہوئے ایک نئی زندگی گزارنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ جب وہ جیل سے رہا ہوتے ہیں تو باہر جا کر وہ مزدوروں اور کسانوں میں اپنی سوچ اور فکر کو پھیلانے کے لیے تگ ود و شروع کردیتے ہیں۔ جس سے مزدوروں اور کسانوں کی زندگی تبدیل ہوتی جاتی ہے ۔ اور وہ اپنے حقوق کے لیے کمر بستہ ہوجاتے ہیں۔ ووٹ اور الیکشن کے موسم میں زمیندار اور بزگر کمیونٹی میں کشمکش کی صورت حال پیدا ہوجاتی ہے۔ مگر خان کے مقابلے میں دلمراد جیت جاتا ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب افغانستان میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی منظم ہورہی ہوتی ہے۔ دِلمراد اور اُس کے ساتھی کسانوں کی زندگی بدلنے کے لیے شب و روز محنت کرتے ہیں۔ زرعی جمہوری اصلاحات کے لیے کسان کمیٹی اور جدوجہد کے دیگر ذرائع استعمال میں لاتے ہوئے ظلم، جبر اور ناانصافی کے سارے راستے بند کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ وہیں گمشاد بطور وزیر زراعت و زرعی جمہوری اصلاحات، دلمراد کے خط کے جواب میں یہ بھی لکھتے ہیں۔
’’ اس کا میابی پر انقلابی حکومت بہت خوش ہے۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ انقلابی حکومت آپ کی ہر طرح سے مدد کرے گی‘‘۔
مصنف عبدالستار پردلی پیش لفظ میں انقلابِ روس اور انقلابِ ثور کی فتح مندی پر اظہار خیال کرتے ہوئے یہ بھی لکھتے ہیں کہ ’’ گندم کی روٹی‘‘ ہمارے سماج کے اُس دور کے جاگیرداروں اور سرداروں کے ظلم و جبر کو ظاہر کرتی ہے‘‘۔
ڈاکٹر صاحب نے ’’ گندم کی روٹی‘‘ کے نام سے ’’ سوب‘‘ کو جس خوبصورتی کے ساتھ اردو میں منتقل کیا ہے وہ انہی کا خاصہ ہے۔ جہاں کئی ایک جگہ بلوچی کے الفاظ کی خوبصورتی آمیزش خوبصورت اور خوشگوار تاثر دیتی ہیں۔ یوں بھی تراجم کے حوالے سے وہ ایک معتبر نام ہیں۔ سنگت تراجم سیریز میں اُن کا یہ ترجمہ یقیناًایک اچھا اضافہ ہے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے