انسانی فکر جب بلوغت سے عاری، بے مقصدیت میں غلطاں اور بے سمتی کا شکار تھی تو کمال معصومیت سے ہر گنجلک اور سادہ شے کی ہیت ترکیبی اور غایت کو اپنی ناسمجھی کے مطابق بیان کیا ۔ اس طرح myths کا ایک لا متناہی سلسلہ شروع ہوا ۔ انسانوں نے بے شماردیوتا گڑھ لیے۔ تب انسان محدود parametersمیں سوچتا تھا۔ پھر سائنس کا سورج طلوع ہوا ؛ وقت اور حالات نے پلٹا کھایا اور انسانی فکر اور سوچ یکسر تبدیل ہوئے۔ اس کے ساتھ ساتھ اظہار کے پیرائے بھی یکساں نہ رہے۔ اور جدید دور کے انسان کو کھلی فضا میں اُڑان بھرنے کیلئے بال و پر میسر آئے۔ مگر کیا ہے کہ جامد معاشرے پھر بھی ہرطرح کے انقلابات سے مکمل طور پر بے نیاز اور بے خبررہے ہیں اور اب تک myths کی دنیا میں رہتے آرہے ہیں۔ یہ لو گ حد سے زیا دہ خود پسند ہوتے ہیں جن کا صرف اپنی سوچ سے سروکار ہوتا ہے۔ وہ بالکل بھی زحمت نہیں کرتے کہ خلق خدا کا approachکیا ہے۔ زیادہ تر افواہوں اور سنی سنائی باتوں پر انحصار ہوتا ہے۔ مطالعہ نام کی کو ئی شے اور کسی بات کو حوالے کے ساتھ بیان کرنے کی خُو ایک دم ناپید ہوتاہے۔
یہ چند روز پہلے کی بات ہے کہ پروفیسر منورہ رحمان صاحبہ کو انسانی حقوق سے متعلق ایک ورکشاپ میں مد عو کیا گیا تھا ۔ وہاں اُنہوں نے دیگر موضوعات کے علاوہ سیکولرزم کی بابت بھی بات کرنی تھی۔ مگر لوگو ں کا مجموعہ چونکہ مختلف محکموں کے آفیسرز اور پڑھانے والوں پر مشتمل تھا اس لیے پروفیسر صاحبہ نے شرکاء کو چھوٹے چھوٹے groupsمیں تقسیم کیا اور انھیں ذمہ داری دی کہ سیکولرزم سے متعلق جو کچھ ان کی سوجھ بوجھ ہے، اُسے باقی شرکاء سے shareکرلیں۔
میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب تین چوتھائی سے زیادہ شرکاء نے سیکولرزم کو ایک منفی نظام کے طور پر پیش کیا، پس اس نظام کے حوالے سے جو آراء شرکاء نے پیش کیں اس کا لب لباب مندرجہ ذیل ہیں:
سیکولرزم دراصل الحاد کا دوسرا نام ہے؛ اس کے لفظی معنی لادینیت ہے؛ یہ ہر طرح کے مذہبی عقائد سے بیزاری کا نام ہے؛ یہ عقیدے کی بیخ کنی اور کفری سازشوں کو عملی جامہ پہنانے کا نظام ہے۔ اس نظام میں ہر مذہب پرپابندی لگ جاتی ہے ؛ عبادت خانوں پر مکمل قد غن لگتاہے۔ اور یہ بھی کہا گیا کہ اس فتنے کو ختم کرنے کی ذمہ داری ہرمذہبی آدمی پر عائد ہوتی ہے۔
مجھ سے نہ رہا گیا اور کوشش کی کہ اپنے طور پر حقائق اُن کے سامنے رکھ دوں ، میں نے اُنھیں بتایا کہ سیکولرز م دراصل یعنی سرمایہ دارانہ سیاسی معاشی نظام کا حصہ ہے ۔اسے کسی کے مخالفت سے جوڑنا بے انصافی ہے۔ سیکولرزم کا مطمح نظر ہر گز کسی مذہب کو نیچا دکھانا نہیں بلکہ اس عالمگیریت کے زمانے میں کثیر المذہبی ممالک کو خوش اسلوبی سے چلانے کیلئے اس نظام کو متعارف کیا گیا۔اگر یہ کسی مذہب کے خلاف ہوتا تو جان لاک یا برٹرینڈرسل جیسے لکھاریوں نے آخر کیوں اُس پہلو کو درخور اعتنا نہ سمجھا۔آپ بیشک صحیح ہوں مگر کوئی ایک حوالہ تو عنایت ہو جس سے ثابت ہو کہ واقعی سیکولرزم کی حتمی منزل مذاہب سے عاری معاشرے کا قیام ہے۔
۲۔ گو کہ یہ نظام عملی طور پر مختلف ادوار میں مروج رہا ہے مگر اس کیلئے باقاعدہ ایک اصطلاح کا استعمال غالباً جارج جیکب ہولیاک نے 1851ء میں کیا ۔ سیکولرز م کا خدا کا ایک یا زیادہ ہونے سے کوئی لینا دینا نہیں، نہ ہی اس نظام کا غرض وغایت انسانوں کو خدا سے متنفر کرنا ہے بلکہ ریاستی اداروں کو احسن طریقے سے چلانا مقصود ہوتا ہے۔ سیکولرز م اگر لادینیت پر مبنی ہوتا تو آج کے سیکولر ریاستوں میں درجنوں ادیان بیک وقت کیونکر موجود ہوتے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو مصر جیسے سیکولر ملک میں جامعہ ازہر جیسا بڑا ادارہ کیسے باقی رہتا۔
۳۔ آپ ذرا دیر کو تصور کر لیں کہ اگر ہمارے ہمسایہ ملک ہندوستان کو سیکولرزم کے بجائے ہندوازم کے سانچے میں ڈھال دیا جا تا تو 14.2فیصد مسلم آبادی کو آئینی طور پر ملیچ قرار دیا جاتا۔ اور انتہا پسند ہندو کسطرح دیوبند جیسے بااثر ادارے کو رہنے دیتے۔ میں نے اُنھیں بتایا کہ سیکولرزم قطعاً مذاہب سے بیزاری نہیں بلکہ تمام مذاہب کو ریاست کے اثر رسوخ سے آزاد کرانے کا نام ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جن ریاستوں نے مذہب کو ذریعہ بناکر جنگیں لڑیں اُنہوں نے مقدسات کی آڑ میں لاکھوں کروڑوں انسانوں کو خون میں نہلا دیا۔
۴۔ چونکہ ایک ہی حتمی حقیقت پر تمام مذاہب کے پیروکاروں کا متفق ہونا ناممکن ہے اس لیے سیکولرزم ہی کے طفیل ریاست نے ایک غیر جانبدار stanceاپنا یا تاکہ ایک ہی ملک میں رہنے والے مختلف مذاہب سے متعلق لوگ پُر امن زندگیاں گزارنے کے قابل ہوں ۔ اس لیے عقلی بنیادوں پر سب کو on boardلیتے ہوئے چلنا قدرے آسان ہوجاتا ہے ۔ اگر دوسرے زاویے سے دیکھاجائے سیکولرزم درحقیقت برداشت اور رواداری کا دوسرا نام ہے۔
۵۔ عالمگیریت کے اس دور میں ملکوں کے مابین اور خود ہر ملک کے اپنے باشندوں کے مابین انحصار کا عنصر بہت حد تک بڑھ گیا ہے۔ اب کسی ایک ملک یا کمیونٹی کو یکسر نظرانداز کرکے آگے بڑھنا مشکلات کا پیش خیمہ بن سکتاہے ۔ ایسا ہر گز نہیں ہوسکتا کہ آپ بامیان میں کسی کے عقیدے کو للکاریں اور سری لنکا یا برما میں آپ کے مقدسات محفوظ رہیں۔
۶۔ سیکولرزم اصل میں مثبت pluralistic معاشرے کے قیام کیلئے اشد ضروری ہے ۔
اپنی بات ختم کرنے کے بعد میں نے لوگو ں میں ملا جلا احساس پایا ۔ کچھ نے داد دی اور زیادہ تر دل ہی دل میں کڑھتے رہے۔ بعض نے تو اپنے اختلاف کا کھل کر اظہار بھی کیا جب ہم میزبان کے دسترخواں سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔میں نے خاموشی میں عافیت سمجھی اور مزید کچھ کہنے کی ضرورت محسوس نہ کی۔
خفگی تو ہوتی ہے لوگوں کو جب اُن کے خود ساختہ myths کے زمین پر زلزلہ آتا ہے ؛ جب کوئی اُنھیں اپنے خول سے نکال باہر لانے کی کوشش کرے ؛ جب اُنھیں راست بیانی کی تلخی سے دوچار ہونا پڑے۔۔۔۔۔ بقول شاعر :
ایک ہی فن تو ہم نے سیکھا ہے
جس سے ملیے ، اُسے خفا کیجیے

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے