بلوچستان میں اُردو افسانوی ادب کے بنیاد گزاروں میں انور رومان کا نام بھی شامل ہے۔ انہوں نے اُس وقت فکشن لکھنے کا سلسلہ شروع کیا، جب بلوچستان میں ادب کی تحریر کا رواج ابھی ابتدائی مراحل میں تھا۔ ایسے میں انہوں نے اپنے قلم اور فکر سے ادب کی آبیاری کی۔ اُردو میں ابتدائی افسانے، افسانچے اور ناول لکھے۔
انور رومان کی تحریروں کا بنیادی موضوع پاکستان اور بالخصوص بلوچستان میں پھیلی ہوئی غربت، طبقاتی کشمکش، معاشی ناانصافی پر مبنی نظام، فرسودہ قبائلی طرزِ معاشرت اور قبیح رسوم و رواج ہیں۔ اس لیے ان کے ہاں سماجی حقیقت نگاری کا رحجان غالب ہے۔ فنی طور پر مستحکم ہونے کے باعث ان کی تحریر عام فہم اور زوداثر بھی ہے۔
اُنیس سو ستر کی دہائی کے آخری برسوں میں ،سال ۱۹۷۷ء کے دوران ان کے دو افسانوی مجموعے سامنے آئے۔ اس سے قبل ان کے چند افسانے اخبارات و رسائل میں شائع ہو چکے تھے۔ جب کہ بعد ازاں وہ ترجمہ نگاری کی طرف مائل ہو گئے۔ اور بلوچستان کی تاریخ و ثقافت سے متعلق کئی اہم کتابوں کے انگریزی سے تراجم کیے۔
مذکورہ کتابوں میں ایک افسانوی مجموعہ ’قمقمے‘(۱) اور ایک ناول ’خانہ بدوش‘(۲) شامل ہیں۔ یہاں اُن کے ناول کا موضوعاتی جائزہ مقصود ہے، تاکہ ان کی تحریر میں موجود رحجانات کی نشان دہی ہو سکے۔
ان کی اکثر تحریروں کی طرح ان کے ناول ’ خانہ بدوش‘میں بھی سماجی حقیقت نگاری کا رحجان ہی غالب نظر آتا ہے۔ جو بنیادی طور پر بلوچستان کے خانہ بدوشوں کی زندگی کی عکاسی کرتا ہے، لیکن ساتھ ہی اس میں سندھ، پنجاب اور پختونخوا میں عام آدمی کی صورت حال اور استحصالی قوتوں کی نشان دہی بھی کی گئی ہے۔
کہانی کا مرکزی کردار لشکران اور اس کا ہم ایک عمر عزیز شرفو ہیں۔ لشکران کا خاندان جیسا کہ خانہ بدوشوں کا معمول ہے، گرمیوں میں کوئٹہ اور سردیوں میں کچھی کے علاقے میں رہائش پذیر ہوتا ہے۔ کہانی کوئٹہ کے منظرنامے سے شروع ہوتی ہے۔ لشکران تب ایک دس بارہ سالہ لڑکا ہے۔ اس کا چچا خاندان سمیت کچھی آنے کی تیاری کر رہا ہے۔ کچھی پہنچ کر خاندان کے لوگ ایک دوسرے سے مل کر خوش ہوتے ہیں۔یہیں اس کی ملاقات اپنے ہم عمر شرفو سے ہوتی ہے اور دونوں کی گاڑھی چھننے لگتی ہے۔ایک دن ذرا سی دیر سے آنے کے جرم میں لشکران کے باپ کو مقامی جاگیردار زمین سے بے دخل کر دیتاہے۔ لشکران کو یہ سب ناگوار گزرتا ہے۔ وہ گھروالوں سے کہتا ہے کہ کچھی کوئی زمین کی آخری حد نہیں، اگر زمیندار کے ظلم کا مقابلہ نہیں کر سکتے تو اس سے آگے نکلنا چاہیے۔ خانہ بدوش خاندان کے لوگ ایسا کرنے پر تیار نہیں ہوتے۔ تب غصے میں نوجوان لشکران اور اس کا دوست شرفو ہر صورت وہاں سے نکلنے کا تہیہ کر لیتے ہیں اور یوں دونوں مل کر سندھ کی طرف نکل پڑتے ہیں۔
سندھ کی شاداب زمینیں، باغات اور چراگاہیں دیکھ کر بنجر میدانی علاقوں کے یہ باسی حیران رہ جاتے ہیں۔ یہاں ان کی ملاقات ’سندھو‘ نامی ایک چرواہے سے ہوتی ہے۔جو تنہا رہتا ہے۔ وہ انہیں اپنی اولاد بنا لیتا ہے۔ دونوں اسی کے ہاں رہ جاتے ہیں۔ یہاں انہیں سات سال گزر جاتے ہیں۔اس دوران سندھ کے زمیندار کے ہاریوں پہ مظالم کے قصے بھی سامنے آتے ہیں۔سندھو کی ایک بہن صفو، پنجاب میں رہتی ہے۔ ایک بار وہ اپنی دو بیٹیوں ثمینہ اور بحرینہ سمیت بھائی سے ملنے پہنچ جاتی ہے۔ اُسے لشکو اور شرفو پسند آ جاتے ہیں۔ وہ دونوں لڑکیوں کی ان سے شادی کروا دیتی ہے، اور واپس لوٹ جاتی ہے۔
اس دوران سندھو گزر جاتا ہے اور صفو بھی وہاں اکیلی ہوتی ہے، اس لیے دونوں بھائی، بیویوں سمیت پنجاب روانہ ہو جاتے ہیں۔ وہاں پہنچ کر وہ دیکھتے ہیں کہ یہ زمین زرخیزی میں سندھ سے بھی دو قدم آگے ہے۔ لیکن عوام کی حالت یہاں بھی ویسی ہی ہے۔ بلوچستان میں جو طبقہ سرداراور سندھ میں وڈیرہ تھا، یہاں مخدوم اور چوہدری ہے۔یہاں وہ نو سال گزاردیتے ہیں۔اس دوران وہ چوہدریوں کے ظلم کے ستائے چند مزارعین کو پناہ دیتے ہیں اور انہیں چوہدریوں کے ظلم سے آگاہ کرتے ہیں۔ چوہدری اس پہ اپنے مسلح غنڈے ان کی ٹھکائی کے لیے بھیجتا ہے۔ یہ دونوں خوب لڑتے ہیں۔ چوہدری کے بیس لوگ مارے جاتے ہیں۔ مزارعین ان کا ساتھ دیتے ہیں۔ علاقے میں ان کی دھاک بیٹھ جاتی ہے۔مگر صفو چاہتی ہے کہ وہ کچھ عرصے کے لیے یہاں سے چلے جائیں۔ تب وہ انہیں اپنے بھائی یاور خان کے پاس بھجوادیتی ہے جو سوات میں رہتا ہے۔
یہاں کے بلند و بالا پہاڑوں کی شادابی ، لوگوں کا طرزِ رہائش، بود و باش، انہیں متاثر کرتا ہے۔یہاں بالادست طبقہ انہیں ملک اور خا ن کی صورت نظر آتا ہے۔ یوں پاکستان کے چاروں صوبوں کی منظرکشی اور بیان مکمل ہوتا ہے۔ یہاں سے پھر واپسی کا سفر شروع ہوتا ہے۔ کچھ عرصہ یہاں رہ کر وہ واپس پنجاب آتے ہیں۔ تب لشکو کووطن کی یاد ستاتی ہے۔ بیوی بچوں کوخالہ کے پاس چھوڑ کر ان سے رخصت لے کر وہ بلوچستان روانہ ہوتا ہے۔
یہاں ایک پہاڑ کے دامن میں اس کی ملاقات پہاڑو سے ہوتی ہے۔اس سے حال حوال لے کروہ اپنے والدین کی تلاش میں کچھی کے میدانوں کی اور چل پڑتا ہے۔ کئی منزلیں پار کرتا آخر وہ اس علاقے تک پہنچ جاتا ہے۔ سولہ سترہ برس کا عرصہ گزر جانے کے باعث وہاں سب کچھ بدل چکا ہوتا ہے۔ اس کے خاندان کا نام و نشان نہیں ہوتا۔ البتہ بستی کا بزرگ اسے پہچان لیتا ہے۔ لشکو، اسے ماما بنا لیتا ہے اور وہیں رہنے لگتا ہے۔ لیکن وہ دیکھتا ہے کہ وہاں کچھ بھی نہیں بدلا؛ جاگیردار اسی طرح طاقت ور جب کہ غریب پہلے سے بدتر ہے۔ اس لیے وہ طے کرتا ہے کہ بستی والوں کو یہاں سے لے جائے گا۔ اسے اپنے بچپن کا پہاڑی علاقہ یاد آتا ہے۔ وہ سب کو تیار کرتا ہے کہ یہاں سے نکل کر نئی بستی بسائیں گے، جہاں کوئی بھوتار، کوئی ہاری نہ ہو، سب برابر ہوں۔
سب نکل پڑتے ہیں۔ بالآخر پہاڑوں میں گھر ی ایک بستی میں پہنچتے ہیں۔ وہاں ایک بڑے سے پتھر کو ہٹا کر اس کے نیچے سے چشمہ دریافت کرتے ہیں اور وہیں پڑاؤ ڈال دیتے ہیں۔ تب لشکو انہیں اپنے بیوی بچوں سے متعلق بتاتا ہے۔ اور بستی کو ماما کے حوالے کر کے بھائی اور بچوں کو مستقل یہاں لانے کے لیے چل دیتا ہے۔
یہاں کہانی تمام ہوتی ہے۔
انور رومان نے بڑی خوبی اور مہارت سے چاروں صوبوں کی جس طرح منظر کشی اور مظلوم طبقات کی جدوجہد کو بیان کیا ہے، وہ اس سادہ کہانی کو ایک کامیاب ناول بناتا ہے۔ ناول کے تمام لوازمات کو کہانی میں نہایت خوبی اور سادگی کے ساتھ برتا گیا ہے۔ یہی فنی خصوصیات کہانی کی سادگی کو مزید خوب صورت بناتی ہیں۔ بیانیہ سادہ ہونے کے باوجود دل چھو لینے والا بن جاتا ہے اور قاری کو اپنے سحر میں جکڑ لیتا ہے۔
یوں تو ناول کی پوری کہانی سماجی حقیقت نگاری کے بیانیے پر ہی مشتمل ہے، لیکن بعض مقامات پہ مصنف کا یہ رحجان مزید کھل کر اور واضح ہو کر سامنے آتا ہے۔ اس کی چند مثالیں پیش ہیں۔
انور رومان نے جاگیرداری نظام پہ خوب طنز کیا ہے، اور اس کی نا انصافیوں کو کھل کر بیان کیا ہے۔
’’کچھی کی زمینیں کتنی اچھی تھیں، سونا اگلتی تھیں اور جبھی تو زمینداروں کے قبضے میں تھیں۔ غریب لوگ ان میں ہل چلا کر، بیج بو کر، پانی دے کر،رات دن ایک کر کے فصلوں کو پالتے تھے اور پھر زمینداروں کے قدموں میں ڈھیر کر دیتے تھے۔لیکن اس میں زمین کا کیا قصور تھا۔زمین فصل دیتی تھی، ہاری فصل اگاتا تھا اور زمیندار مزے سے بیٹھے کھاتے تھے، گلچھرے اڑاتے تھے۔‘‘(۳)
ایک اور جگہ ،لشکو کا چاچا اسے بتاتا ہے:
’’۔۔۔بیٹا! زمینداری نظام میں زمین ہاری کی نہیں بلکہ زمیندار کی ہوتی ہے اور ہاری زمیندار کی ملکیت ہے، اسے اس پر زندگی اور موت کا اختیارہے، اسے اس کے مال اور مویشی پر اختیار ہے،اسے اس کے کھیتوں اور چشموں پر اختیار ہے۔‘‘(۴)
تب لشکران سوچتا ہے:
’’آخر باوا نے اس پتھریلی زمین پر ہل چلایا تھا، بیج بویا تھا، اسے پانی دیتا رہا تھا، اسے گھاس پھوس سے صاف کرتا رہا تھا،اس میں کھاد ڈالتا رہا تھا۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اس کے سوا اور کوئی اس زمین پر اپنا حق جتائے اور اپنا قبضہ جمالے۔‘‘(۵)
اسی طرح لشکران کا وطن واپسی پر پہاڑو سے سامنا ہوتا ہے اور وہ اسے ظالم سردارکی طاقت سے ڈراتا ہے تو لشکران اس سے کہتا ہے:
’’توبہ، میرے چچا پہاڑو! خدا کی قسم! یہ ظالم لوگ خدا اورر سول نہیں ہوتے، وہ میری اور تمہاری طرح گوشت پوست کے انسان اور ہڈیوں کے پنجر ہوتے ہیں، اور اتنے اپاہج اور مفلو ج کہ دوسروں کے مارے ہوئے شکار، دوسروں کے اناج، دوسروں کے لباس، دوسروں کی خوراک، دوسروں کے بیٹے بیٹیوں پر زندہ رہتے ہیں۔‘‘(۶)
یوں ہم دیکھتے ہیں کہ بنیادی طور پر ان کا ناول پاکستان میں جاری طبقاتی جدوجہد کی ایک شاندار علامت بن جاتا ہے۔ انہوں نے جس طرح ایک ہی کہانی میں بیک وقت بلوچستان، سندھ ، پنجاب اور پختونخوا میں ظالم و مظلوم طبقات کی عکاسی کی ہے، وہ مبنی بر حقائق ہے۔ علاوہ ازیں زبان کی سادگی اور چاشنی نے اسے مزید پُر تاثیر بنا دیا ہے۔
البتہ ہم دیکھتے ہیں کہ حب الوطنی کے جذبات کی شدت میں بہہ کر ایک آدھ جگہ انہوں نے تاریخی حقائق کو درست طور پر پیش نہیں کیا۔ مثلاً ایک جگہ لشکو کی خودکلامی میں وہ بلوچستان، سندھ، پنجاب اور سرحد کو اس کی ماں کے مترادف قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں:
’’۔۔۔اور پھر ان سب قبائل، ان سب صوبوں، ان سب خطوں، ان سب ماؤں کی بھی ایک ماں ہے؛پاکستان، جس نے ان سب کو جنم دیا۔‘‘(۷)
حالاں کہ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ ان تمام قبائل، صوبوں (بلکہ ریاستوں) اور خطوں نے مل کر پاکستان کو جنم دیا۔ ۱۹۴۷ء سے قبل جب پاکستان وجود میں نہیں آیا تھا، یہ خطے تب بھی موجود تھے اور آباد تھے۔
اسی طرح آخری سطروں میں بلوچستان کا تذکرہ کرتے ہوئے مصنف لشکران کی زبانی کہتا ہے:
’’ماما، اس کاتو صاف مطلب یہ ہے کہ قدرت نے ان پہاڑوں میں اپنے بے پناہ اور نہایت قیمتی خزانے چھپا رکھے ہیں، صرف یہاں کے انسان کو اتنی ہی محنت کی ضرورت ہے جتنا سندھ، پنجاب اور سرحد کا آدمی کرتا ہے۔‘‘(۸)
یہ بھی ایک تاریخی مغالطہ ہے کہ بلوچستان کے لوگ محنت کش نہیں، یا دوسرے صوبوں کے لوگوں کی طرح پسینہ بہانے کے عادی نہیں۔ حالاں کہ یہ فطری امر ہے کہ کوہ نشیں آدمی ، میدانی لوگوں کی نسبت زیادہ محنت کش ہوتا ہے۔ جس طرح پشتون عوام ہیں۔ اسی طرح بلوچ بھی محنت کش ہے، کہیں چرواہے کی صورت ، کہیں ہاری کی صورت، کہیں خانہ بدوش کی صورت۔ خانہ بدوشی سے بڑھ کر بھلا کون سی مشقت ہو گی؟ جو کہ اس ناول کا مرکزی تھیم ہے۔ اس لیے یہ کہنا کہ بلوچستان کے عوام کو سندھ یا پنجاب کے لوگوں کی طرح محنت کرنے کی ضرورت ہے، صریح زیادتی ہو گی۔ گو کہ سندھ اور پنجاب کے عوام بھی محنت کش ہیں، لیکن اس ضمن میں بلوچستان کے عوام بھی کم محنت کش ہر گز نہیں۔
ٍ ان تاریخی موشگافیوں سے قطع نظر ہم دیکھتے ہیں کہ انور رومان کا مذکورہ ناول اپنے موضوع اور بُنت میں سماجی حقیقت نگاری کے ترقی پسندرحجان کی نمائندگی کرتاسادہ مگر شان دار ناول ہے۔

حوالہ جات
۱۔ رومان، انور، ’’قمقمے‘‘،کوئٹہ: قلات پبلشرز، ۱۹۷۷ء
۲۔ رومان، انور، ’’خانہ بدوش‘‘،کوئٹہ: قلات پبلشرز، ۱۹۷۷ء
۳۔ایضاً، ص ۱۳
۴۔ ایضاً، ص، ۲۶
۵۔ ایضاً، ص ۷۳
۶۔ ایضاً، ص۹۰
۷۔ ایضاً، ص ۱۰۳

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے