۔26نومبر2016ء کو دُنیا بھر کے انسان دوست اور ترقی پسند حلقوں میں یہ خبر نہایت افسوس کے ساتھ سُنی گئی کہ عظیم فیڈل کاسٹرواب اِس دُنیا میں نہیں رہے، فیڈل کاسٹرو کا نام ذہن میں آتے ہی ان کے ملک کیوبا اور ان کی عظیم الشان جدوجہد کے عظیم ساتھی کامریڈ چے گویرا کا نام خود بخود ذہن میں آجاتا ہے۔
کیوبا کو دُنیانے اس وقت جانا جب پندرویں صدی کی آخری دہائی میں کرسٹو فرکولمبس کا جہاز اس جزیرے پر لنگر انداز ہوا یہاں قدیم انڈین قبائل ’’اراواک‘‘ آباد تھے۔ زرعی لحاظ سے یہ جزیرہ زرخیز تھا گنا، تمباکو ، کافی اور د یگر کئی نعمتوں کی یہاں بہتاب تھی زمین کی اِسی زرخیزی کی وجہ سے کولمبس نے یہاں ہسپانیوں کے لیے سلطنت کی بنیاد رکھی۔ 1898ء میں امریکہ کی کیوبا کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی وجہ سے جنگ کا آغاز ہوا ۔اس جنگ کے نتیجے میں کیوبا سیاسی طور پر امریکہ کی آماجگاہ بن گیا۔1933ء میں امریکی آشیرواد پر ایک فوجی آفیسر بتستانے صدر مچوڑو کی حکومت کا تختہ اُلٹ کر اقتدار پر قبضہ کرلیا اور عام سیاسی سرگرمیوں پر پابندی لگا کر کیوبن عوام کے لیے زندگی عذاب بنا دی، امریکہ کی طرف سے مسلسل مداخلت کے خلاف اور کیوبا کی خود مختاری کے لیے فیڈرل کاسٹرو نے اپنے چند جان نثاروں کے ساتھ گوریلا جنگ کا آغاز کیا۔
فیڈل کاسٹرو ایک دولت مند باپ کا بیٹا تھا اس نے زمانہ طالب علمی ہی میں کیوبا کے عوام پر ہونے والے مظالم اور کیوبا میں سامراجی مداخلت کے خلاف سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کردیا تھا وہ ہمہ جہت انقلابی شخصیت کا مالک، نڈر اور بہادر انسان تھا۔ 1952ء میں نوجوان کاسٹرو کی قیادت میں طلباء کے ایک گروپ نے سانتا گوڈی میں ایک فوجی گریژن پر حملہ کیا ۔اس حملے میں کاسٹرو اور ان کا بھائی راؤل کاسٹرو گرفتار کرلیے گئے پھر 1955ء میں سیاسی دباؤ پر بتستا کی حکومت نے دونوں بھائیوں کو رہا کرکے جلاوطن کردیا۔ انہوں نے میکسیکو میں پناہ لی یہاں راؤل کاسٹرو کی ملاقات چے گویرا سے ہوئی۔ بعد میں راؤل نے چے گویرا کی ملاقات فیڈل کاسٹرو سے کرائی۔ دونوں رہنماؤں میں نظریات کی ہم آہنگی نے انہیں مستقل ساتھی بنا دیا اور چے گویرا کاسٹروکی اس تحریک میں باقاعدہ شامل ہوگیا جس تحریک کا مقصد امریکی سامراج کے ایجنٹ اور کیوبا کے ڈکٹیٹر بتستا کی حکومت کا تختہ اُلٹنا تھا۔ فیڈل کاسٹرو کی قیادت میں مسلح انقلابیوں کا ایک گروپ میکسیکو سے کیوبا کی بندرگاہ ویرا کروز کی جانب روانہ ہوا۔ ساحل پر پہنچتے ہی انقلابی گروپ پر حکومتی فوج حملہ آور ہوگئی۔ آدھے سے زیادہ جان باز اس لڑائی میں مارے گئے 20کے قریب زندہ بچ جانے والے پہاڑوں پر چلے گئے اور اپنے گروپ کو دوبارہ منظم کرکے گوریلا جنگ کا دائرہ پہاڑوں سے میدانی علاقوں تک پھیلا دیا۔ گوریلا جنگ لڑنے والے تعداد میں تو تھوڑے تھے لیکن انہیں عوام کی طرف سے بھرپور تائید و حمایت حاصل تھی کیونکہ کیوبن عوام ڈکٹیٹر بتستا کی عوام دُشمن حکومت اور کیوبا میں امریکن سامراج کی مداخلت سے شدید نفرت کرتے تھے اِسی لیے انقلابی فتح یاب ہورہے تھے اور حکومتی فوجوں کو ایک کے بعدایک محاذ پر شکست کا سامنا کرنا پڑرہا تھا۔ سرکاری افواج کے جوان اور پولیس اہلکار انقلابی فوج کے ساتھ ملتے جارہے تھے ایک محاذ پر شکست کے خوف سے کیوبن فوج کے سرکردہ جرنیل، جرنل کائیلو نے فیڈل کاسٹرو سے جنگ بندی کے لیے مذاکرات کیے جس پر بتستا کی آمرانہ حکومت کے قدم ڈگمگا گئے اور ڈکٹیٹر بتستا یکم جنوری 1959ء کو ملک سے فرار ہوگیا۔
یہ دِن اِنسانی تاریخ کا کبھی نہ بُھلائے جانے والا دِن ہے۔ اِس دِن سامراج کے ہیڈ کوارٹر، سرمایہ دارانہ نظام کے قائد اور دُنیا میں اپنی طاقت کے بل بوتے پر دہشت کی علامت امریکہ کی سرحدوں سے صرف 90میل دور یعنی بہت قریب ایک سوشلسٹ انقلاب برپاہوگیا یہ خبر سرمایہ دار دُنیا کے لیے روسی اور چینی انقلاب سے زیادہ صدمے والی خبر تھی۔
اِس انقلاب کوکامیاب کرنے میں جہاں فیڈل کے جانثاروں نے بے پناہ قربانیاں دیں ، اپنے عوام کی آزادی کے لیے بہادری، عزم و حوصلے کی جو تاریخ رقم کی اُسے ہمیشہ قدر کی نگاہوں سے دیکھا جاتا رہے گا لیکن ایک ایسے آدمی جس کا کہ کیوبا سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا یعنی چے گویرا کے تذکرے کے بغیر نہ تو کیوبا کا انقلاب مکمل ہوتا ہے اور نہ ہی فیڈل کاسٹرو کی شخصیت۔ چے گویرا کی خدمت کے اعتراف میں فروری 1959ء کو انقلابی حکومت نے انہیں کیوبا کی شہریت دی ، چے گویرا نے کیوبا کے انقلاب کو سرخرو کرنے لیے متعدد سرکاری محکموں کے سربراہ کی حیثیت سے انتھک محنت کے ساتھ کام کیا ۔
فیڈل کاسٹرو کی انقلابی حکومت نے سامراجی سرمایہ بحق کیوبن عوام ضبط کیا ، کاسٹرو نے اپنی زمینوں سمیت تمام جاگیریں کسانوں میں تقسیم کیں ۔تعلیم اور صحت کا وہ نظام قائم کیا جس کی دُنیا کے امیر ترین ممالک میں بھی مثال نہیں ملتی۔ فیڈل کاسٹرو نے دُنیا بھر میں جہاں بھی ممکن ہوا سامراج مخالف تحریکوں کا ساتھ دیا۔ وہ اِس لحاظ سے بھی انسانی تاریخ کا منفرد انسان ہے کہ جس کو مارنے کے لیے ان پر ساڑھے چھ سو کے قریب قاتلانہ حملے کیے گئے لیکن اس کے باوجود کاسٹرو کے طاقتور دُشمن اس کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکے ۔وہ 90 سال کی طویل جدوجہد سے بھرپور اور قابل فخر زندگی گزار کر اپنی موت مرے ۔ان کی موت پر امریکہ کے کچھ شہروں میں جشن منایا گیا۔ ایک 90سالہ بیمار بوڑھے کی موت پر سامراج کے ہیڈ کوارٹر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور یہی فیڈل کاسٹرو کی سچائی تھی کہ وہ سرمایہ داری نظام کے خداؤں کے دِل میں کانٹے کی طرح کھٹکتے تھے۔
فیڈل کاسٹرو کے دست راست اور عظیم جدوجہد کے ساتھی چے گویرا انقلاب کے راستے پر چلتے ہوئے اکتوبر1967ء میں بولیویامیں شہید کردیئے گئے ان کے دُشمنوں نے ان کی لاش کو نامعلوم مقام پر دفن کردیا۔فیڈل کاسٹرو نے اپنے عظیم ساتھی کی موت کا اعلان 18اکتوبر 1967ء کو ہوانا میں ایک جلسہ عام میں کیا ۔انہوں نے 10لاکھ لوگوں کے جم غفیر سے خطاب کرتے ہوئے کہا ۔ چے انقلابی جنگ کا ایک باکمال ماہر تھا ، جو لوگ اس کی موت پر فتح کے شادیانے بجا رہے ہیں وہ خام خیالی میں مبتلاء ہیں۔ جو لوگ یہ گمان رکھتے ہیں کہ چے کی موت اس کی نظریات اور اس کی چھاپہ مار جنگ کی حکمت عملی کی موت ہے تو انہیں جلد مایوسی کا سامنا کرنا پڑے گا ، فیڈل کاسٹرو نے کہا ہمارے دُشمنوں نے صرف ایک شخص کو قتل کیا ہے جبکہ چے گویرا اپنے نظریات کے ساتھ ہمیشہ زندہ رہے گا کیونکہ کیوبا کا بچہ بچہ چے گویرا بننا چاہتا ہے ۔
فیڈل کاسٹرو اور ان کے انقلابی ساتھیوں نے نصف صدی قبل کیوبا میں جو انقلاب کیا تھا اس کو کمیونسٹ پارٹی آف کیوبا نے کامیابی کے ساتھ برقرار بھی رکھا ہے۔ اس کے باوجود کہ پوری سرمایہ دار دُنیا نے کیوبا کی اقتصادی ناکہ بندی کررکھی ہے اور امریکہ جیسا سفاک اور طاقتور دُشمن کیوبا کا پڑوسی ہے جو حکومتیں امریکہ کی اطاعت سے گریزاں اور سامراجی مفادات کے خلاف ذرہ بھر بھی مزاحمت کرتی ہوں انہیں وہ صفحہ ہستی سے مٹا دیتا ہے۔ اور پھر 1991ء میں سوویت یونین بکھر گیا۔ وہاں سوشلزم کی جگہ سرمایہ داری نے لے لی اس تاثر کو پکا کرنے کے لیے کہ سوشلزم ایک ناکام نظام تھا ’’تاریخ کا اختتام‘‘ اور ’’تہذیبوں کا تصادم‘‘ نامی بے سروپا یہ اور بے بنیاد کتابیں لکھوائی گئیں اور یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ اب دُنیا میں انسانی مسائل کا واحد حل سرمایہ داری ہی ہے۔
اتنے مشکل ترین حالات کے باوجود فیڈل کاسٹرو اور کیوبن عوام نے سامراج کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کیوبا کی آزادی ،خود مختاری اور سوشلسٹ نظام کو زندہ رکھا ہے لیکن کیوبا کا سوشلسٹ انقلاب محض نعرے بازی اور سامراج دُشمنی ہی کے نام پر زندہ نہیں ہے۔کیوبا میں ایک مثالی انسانی سماج قائم ہے ،انسان کے ہاتھوں انسان کے استحصال کا خاتمہ ہوچکا ہے، کیوبا میں صنفی امتیاز نہیں ہے اس لیے کہ وہاں طبقاتی نظام نہیں ہے ۔سو فیصد لوگ تعلیم یافتہ ہیں اور صحت کا نظام سب کے لیے برابری کی بنیاد پر ہے۔ اوسط عمر امریکہ سمیت کئی سرمایہ دارانہ ممالک سے زیادہ ہے۔ چیزیں انسانی ضرورت کے لیے پیدا کی جاتی ہیں منافع کمانے کے لیے نہیں۔ اِسی لیے وہاں مصنوعی کھاد کی جگہ قدرتی کھاد استعمال ہوتی اور مضرِ صحت کیڑے مار ادویات کی جگہ زہریلی جڑی بوٹیوں سے تیارہ کردہ دواؤں کا استعمال ہوتا ہے اور اس عمل سے جو فصل حاصل ہوتی ہے وہ سو فیصد انسانی صحت کے اُصولوں کے مطابق ہوتی ہے ۔اوقاتِ کار اور حالاتِ کار میں بھی دُنیا کیوبا کا مقابلہ نہیں کرسکتی یہی تمام چیزیں مل کر انسان کی اوسط عمر میں اضافہ کرتی ہیں۔ سرمایہ دار دُنیا کا کوئی بھی ملک اس بات کا دعویٰ نہیں کرسکتا ہے کہ وہ مقروض ملک نہیں ہے لیکن کیوبا وہ ملک ہے جو کسی کا بھی مقروض نہیں اور اس کی وجہ بھی ظاہر ہے کہ فیڈل کاسٹرو کا کوئی بینک بیلنس نہیں ، کیوبا کے کسی حکومتی عہدیدار کا نام پناما لیکس میں نہیں ہے۔
26۔نومبر کو جس فیڈل کاسٹرو کاا نتقال ہوا وہ اس وقت کوئی حکومتی عہدیدار نہ تھے۔ انہوں نے 2008ء میں صدارت کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا حکومت نے ان کے انتقال پر 9 روزہ سوگ کا اعلان کیا تھا۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے