وہی مرثیے اور قوالی، روایتی بدمزاجی غصہ، گالی، دہشت گردی، فریب اور جھوٹ جگالی بھکاری، کشکول اور تالی، زرہ برابر تبدیل نہ دیکھی نہ سنی۔ خودکش حملوں میں ہلاک ہونے والوں کے لیے احتراماً چند لمحوں کی خامشی، موم بتیوں کی روشنی ،گمشدہ افراد کی کہانی اور پھر نئے پاکستان کی خوشخبری ، امن کے لیے ترستی زندگی ،چکن گونیا، کانگو وائرس اور ڈینگی ، جعلی ادویات بیماری ہی بیماری ۔ بے کاری اور بے روزگاری ، پولیو کا واویلا، نیب کا میلہ، سانحہ گڈانی، مہاجرین و مردم شماری، شناخت کا مسئلہ اور گوادر،نہ جانے اور کیا کیا۔
بلوچستان اندر سے بالکل ویسا ہی ہے جیسے صدیوں سے تھا ۔ البتہ بلوچستان باہر سے تبدیل ہوچکا ہے۔اس سرزمین سے نئے رشتے وابستہ ہوئے۔ تعلقات میں وسعت آئی ۔ لیکن بد نیتی اور بد اعتمادی ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتے۔ پر یوں اور جنات کی کہانیوں کی جگہ مظالم اور معدنیات کے قصوں نے لے لی ہے۔ ماضی کی روایتی کہانیوں میں بھی معصوم بچوں کے لیے خوف کا عنصر تھا اور نئی کہانیوں میں بھی خوف ہی خوف ہے۔ گو کہ بلوچستان کے روشن خیال دانشوروں، علماء اور سیاستدانوں نے ہر طرح سے بلوچستان کوسمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ لیکن یہ بات عجیب ہے کہ ون یونٹ میں بھی بلوچستان تنہا رہا اور ون یونٹ کے خاتمے کے بعد بھی تنہائی کا شکار ہے ۔ مارشل لاؤں میں بھی مار کھاتا رہا اور جمہوریت کے دنوں میں بھی مار کھاتا رہا ۔سوکنوں والا رویہ سمجھ سے بالا ترہے۔ روس کی افغانستان میں آمد پر بھی یہاں کے لوگ پستے رہے۔ امریکہ کے افغانستان میں داخل ہونے کے بعد بھی ساری بلائیں اِسی صوبے پر اتر رہی ہیں۔ حکمرانوں کی جانب سے زیادتیاں ہورہی ہیں یا قومی اداروں کی سرد مہری ہے کہ بلوچستان اپنے مثبت رویوں اور خوبصورت شناخت رکھنے کے باوجود بیگانگی کا شکار ہے ۔یہ قومی دھارا ہے کیا جس میں بلوچستان نہ شامل رہا ہے اور نہ شامل سمجھا جاتا ہے ؟۔کیا وہ کھلاڑی، شعراء ادبا سیاستدان، فنکار، ہنر مند جو دنیا میں اس صوبے کے حوالے سے شناخت رکھتے ہیں وہ اس قابل نہیں کہ انہیں قومی شناخت میں شامل کیا جائے؟ ۔ 2016 ء میں انتظار حسین و دیگر ادباء شعراء کی طرح کمال فن حاصل کرنے والے ممتاز دانشور، ترقی پسند شخصیت ماما عبداللہ جان جمالدینی کا انتقال ہوتا ہے ۔ نہ اس وقت قومی میڈیا میں اس کا تذکرہ ہوتا ہے اور نہ ہی 2016 کی رخصت شدہ شخصیات کی فہرست میں وہ شامل ہوتے ہیں ۔ جنہوں نے زبانوں اور انسانوں کی خدمت کی، ترقی پسند ادب کو فروغ دیا، ان کا انتقال المیہ نہیں؟۔ دو کرکٹروں کی لڑائی، پاکستانی نژاد باکسر عامر خان کی بیوی سے ناراضگی اور ایک نیلی آنکھوں والے چائے فروش، کسی ایم این اے کو ایک نوجوان کے تھپڑ رسید کرنے کی خبر ، اور چھوٹے موٹے واقعات کی خبر دنوں اور ہفتوں تک خبروں کی زینت بنی رہتی ہے ۔ بلوچستان کے انٹرنیشنل باکسر وسیم علی زئی کی کامیابی پر نہ جانے کیوں قومی شناخت میں شامل کرنے والوں کی آنکھیں بھینگی ہوجاتی ہیں؟۔ حالانکہ ماما عبداللہ جان کی رحلت کے بعد وسعت اللہ خان نے میڈیا کی گو شمالی بھی کی تھی۔ نامور شعراء ادبا ، دانیال طریر ، امرت مراد، سعید گوہر، اداکار حسام قاضی، باکسر ابرار حسین اور کئی شخصیات کا تو مقامی سطح پر بھی ان کے شایان شان تذکرہ نہیں ہوا۔ اور نہ ہی مقامی یا قومی سطح پر ان کی برسی پر یاد کرنے کا یہاں کوئی رواج ہے۔ اور کمال بات یہ ہے کہ قومی شناخت کا اعزاز بانٹنے والوں کے شہر یا قصبوں سے بلوچستان روزگار کی غرض سے کوئی بھی آیا یہاں نام کمایا تو وہ قومی ہی کہلایا ۔اور یا مقبول ، لیلی زبیری، ذوالقرنین حیدر، عابد علی، ہی کو لے لیں جو کوئٹہ آتے ہیں نام بناتے ہیں پھر قومی شناخت پاتے ہیں ، بیچارہ ایوب کھوسہ، ظفر معراج، زیبا بختیار ، جمال شاہ، اختر چنال، عطا شاد ، فاروق مینگل و بعض دیگران بڑے شہروں تک پہنچنے کے باوجود ابھی تک قومی شناخت میں شامل نہیں ہوسکے۔ گذشتہ روز بلوچستان میں ایکسی لینس ایوارڈ میں شعراء کی کٹیگری میں تین نام شامل کیے گئے ۔ عطا شاد، دانیال طریر اور نوید حیدر ہاشمی، جبکہ قرعہ نوید حیدر ہاشمی کے نام نکلا۔ میرے خیال میں شناخت اور میرٹ کے حوالے سے یہ مثال کافی ہے۔ ان اعزازات سے کوئی بڑا یا چھوٹا نہیں ہوتا نہ ہی میڈیا میں ماما عبداللہ جان کے انتقال کی خبر نشر نہ کرنے سے ان کی عظمت میں فرق پڑا ہے، وہ بڑی شخصیت تھے اور رہیں گے۔ بات محض رویوں کی ہے۔ افسوس تب ہوتا ہے جب بھی کوئی اعلیٰ شخصیت بلوچستان میں کسی مجمع میں کھڑا ہوکر بلوچستانیوں کو قومی شناخت میں شامل ہونے کا مشورہ دیتا ہے ۔ یا اس خواہش کا اظہار کرتا ہے تب بہت افسوس ہوتا ہے کہ قومی دھارے میں شامل ہونے کا طریقہ کار آخر ہوتا کیا ہے۔کوئی یہ راز پوچھے جو قومی سیاست کرتے ہیں، قومی اسمبلی اور سینٹ میں نمائندگی کرتے ہیں، بیرون ملک جو فنکار، کھلاڑی ، ادیب ، دانشور، سیاستدان پاکستان کے نام سے جانے جاتے ہیں وہ اپنے ملک میں آخر مقامی کیوں بن جاتے ہیں۔ نفرتوں اور تعصب پر مبنی سیاست اور قومی اداروں کے فیصلوں کا خاتمہ کیا جائے۔ نژادوں کی بجائے اس ملک میں وقت اور صلاحیتوں کا مشکل حالات میں اظہار کرنے والوں کے لیے محبت اور مساوات کا جذبہ پیدا کیجیے، استحصالی اداروں اور قوتوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ جن حقوق کے حوالے سے چھوٹے صوبے یا چھوٹے شہر چلا رہے ہیں ان کا نوٹس لیا جائے۔ ملک کے کسی بھی کونے میں کوئی نابغہ روزگار شخص پایا جاتا ہے باصلاحیت نوجوان موجود ہے انہیں اپنے ہاں شناخت کا مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔ حکمرانوں کے ساتھ ساتھ میڈیا جس یکجہتی کے اقوال پیش کرتے ہوئے نہیں تھکتی اُسے اپنے افعال و کردار پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ کیا کسی کے جذبات کو ریٹنگ کی نذر کرنے والوں کا شمار استحصالی ٹولے میں نہیں ہوتا؟ سب کے لیے خیر کے کلمات ایک جیسے ہونے چاہئیں۔ اچھے اور برے کی تمیز بھی ایک جیسی ہونی چاہیے ۔
بہر حال 2016 ء میں بلوچستان ایک مرتبہ پھر خون آلود رہا۔ اتنے بڑے صدمات سے گزرنے والا صوبہ جو پالیسیوں کی بھینٹ چڑھ چکا ہے ۔ اسے غم و صدمات کے علاوہ باقی معاملات میں بھی شامل کیا جائے تاکہ نئی نسل بھی پرانے سوالات کے ساتھ زندگی کی معمولات پر نہ رہے۔کیونکہ محض زیادتیوں کو تسلیم کرنے سے بلوچوں کے دکھوں اور غموں کا مداوا نہیں ہوسکتا۔ انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں ۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے