غبار تھا، غبار بھی نہیں رہا
خدا کا انتظار بھی نہیں رہا
یہ دل تو اس کے نام کا پڑاؤ ہے
جہاں وہ ایک بار بھی نہیں رہا
فلک سے واسطہ پڑا ، کچھ اس طرح
زمیں کا اعتبار بھی نہیں رہا
یہ رنج اپنی اصل شکل میں ہے دوست
کہ میں اسے سنوار بھی نہیں رہا
یہ وقت بھی گزرنہیں رہا ہے اور
میں خود اسے گزار بھی نہیں رہا
گئے دنوں کے دشت میں کمال تھے
اب ایسا اک دیار بھی نہیں رہا

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے