نظم ۔۔۔ زہرا بختیاری نژاد/احمد شہریار
میں جبراً تم سے نفرت کروں گی تمہارے عشق سے میری زندگی کے حصے بخرے ہوجائیں گے میں پانی پیتی ہوں تو اس میں تمہارے بوسے کا ذائقہ ہوتا ہے…
میں جبراً تم سے نفرت کروں گی تمہارے عشق سے میری زندگی کے حصے بخرے ہوجائیں گے میں پانی پیتی ہوں تو اس میں تمہارے بوسے کا ذائقہ ہوتا ہے…
سنا رہا تھا کہانی سنانے والا کوئی اور اس کہانی میں تھا سچ بتانے والا کوئی یہ شام بھی بڑی مصروفیت میں گزری ہے سو یاد آیا نہیں یاد آنے…
تم دھیرے دھیرے مرنے لگتے ہو گر سفر نہیں کرتے گر مطالعہ نہیں کرتے گر زندگی کی آوازیں نہیں سنتے گر خود کو نہیں سراہتے ۔ تم دھیرے دھیرے مرنے…
کمزور ذہن چوڑے ماتھے والے اور ان کے ہر خط پیشانی میں کنداں اک کرب مسلسل چھوٹی آنکھیں کمزور نظر دھندلے مناظر اور وہ دیکھ لیتے ہیں مکمل انسانوں کا…
اندروں نیند کا اک خالی مکاں ہوتا تھا میری آنکھوں میں ترا خواب نہاں ہوتا تھا روز جاتے تھے بہت دور تلک ہم دونوں پر یہ معلوم نہیں ہے میں…
دریا سخت دباؤ میں ہے ڈوبنے والا ناؤ میں ہے اب ذرے ذرے کا ہاتھ صحرا کے پھیلاؤ میں ہے مرہم میں آرام نہیں ساری تسکیں گھاؤ میں ہے تصویروں…
بہت دور تک یہ جو ویران سی رہگزر ہے جہاں دھول اڑتی ہے صدیوں کی بے اعتنائی میں کھوے ہوے قافلوں کی صدائیں ، بھٹکتی ہوئی پھر رہی ہیں درختوں…
دیا کہتا رہا ، چپ تھے دریچے پتنگوں نے سنے خوشبو کے قصے ان ہونٹوں پر تبسم کھلتے کھلتے بدل جاتے ہیں انگوروں میں غنچے یہ ساحل پہلے بھی دیکھا…
چاند کے ساتھ گئی جھیل کی تابانی بھی سسکیاں لینے لگے رات کے زندانی بھی شہرِ معلوم کی گلیوں سے گزرتے لوگو دھیان میں رکھنا کوئی لمحہء امکانی بھی ساتھ…
بْجھے ہوئے سے جو چند سگریٹ پڑے ہوئے ہیں سو ہم محبت میں اس طرح سے جلے ہوئے ہیں یہ میرا کمرہ۔۔۔یہ میرا گھر ہے؟۔۔ میں کیسے مانوں یہاں تو…
سچ کو سچ ہونے نہیں دیتے ہیں اپنے لبادوں پہ جو ہم سچ پہ چڑھائے ہوئے ہیں فیصلے سب اپنے کئے جاتے ہیں خود کو، ہر رِشتے کو اِن کہنہ…
تیر اِس بار نشانے کی طرف سے آیا یعنی اِک زخم نہ آنے کی طرف سے آیا کارِ دْنیا نے اب اْلجھایا ہے ایسا کہ مجھے دھیان اپنا بھی زمانے…