ملک کی کل ساحل ایک ہزار کلومیٹر پرمشتمل ہے۔تاہم بلوچستان کے ساحلی پٹی بمطابق محکمہ فشریز778کلومیٹر پربلوچستان کے دو اضلاع گوادر اور لسبیلہ پر مشتمل ہے۔گوادر کے ساحل600کلومیٹر جبکہ لسبیلہ کے ساحلی علاقہ 178کلومیٹر پر مشتمل ہیں۔ساحل بلوچستان آبی وساہل اور سمندری دولت سے مالامال ساحل سمندر ہے۔جیساکہ اگلتی سونا سرزمین بلوچستان میں قدرتی گیس وتیل،سونا و چاندی،کرومائیٹ وپن بیرائیٹ،کوئلہ و چونے کاپتھر اور پیومائس و سنگ مرمر سمیت دیگر قیمتی معدنی وسائل کی کوئی کمی نہیں۔اسی طرح ساحل بلوچستان میں دنیا کے مہنگاترینSea Food اور اعلی القسام مچھلیوں،جھینگوں اور لابسٹرز ودیگر آبی وسائل کی کوئی کمی نہیں۔اس وقت دنیا میں مچھلیوں کو پچاس بنیادی نسلوں یا اقسام میں تقسیم کئے جاتے ہیں۔جن کے 38اقسام ساحل بلوچستان میں موجود ہیں۔
ایک بین القوامی ریسرچ کے مطابق ساحل بلوچستان کے سالانہ پیداوار چھ لاکھ میٹرک ٹن آبی وسائل ہیں۔جس کی کل مالیت ساڑھے چھ ارب روپے ہیں۔ اور بحر ہند کے مقابلے میں بحر بلوچ کے ساحلی پیداوار چار گناہ زیادہ ہے۔اسی طرح دنیا کے دیگر ساحلوں کے مقابلے میں پیداواری صلاحیت دس گناہ زیادہ ہیں۔ جو کہ دنیا کے بہترین ساحل سمندروں میں سے ایک ہے۔
ساحل بلوچستان سے پیشے کی لحاظ سے 50000مقامی افراد وابسطہ ہیں۔تاہم پچاس ہزار خاندانوں کے عتبار سے تقریبا دو لاکھ مقامی افراد کے روزگار یا ذریع معاش ڈائریکٹ وابسطہ ہیں۔ جبکہ ان ڈائریکٹ تین لاکھ افراد کا ذرائع معاش منعصر ہیں۔اورپانی کا تناسب سطح زمین سے3%فیصد ہے۔اسی طرح محکمہ فشریز کے مطابق ساحل بلوچستان پرتمر)مینگروز(کے جنگلات کی کل لمبائی 51کلومیٹرپر مشتمل ہیں۔
اعلی القسام آبی وساہل اور مہنگا ترین سی فوڈ رکھنے اوربحرہند کے مقابلے میں چار گناہ زیادہ پیداواری صلاحیت رکھنے اسی طرح دنیا کے دیگر ساحلوں کے مقابلے دس گناہ زیادہ ساحلی پیداواری صلاحیت رکھنے کے باوجود ساحل بلوچستان حکومتی عدم توجہی کا شکارآج کے جدید دور میں بھی مقامی ماگیر جدید کشتیاں اور دیگر جدید سہولیات سے محروم ہیں۔جو اپنی مدد آپ کے تحت قدیم طریقوں سےBoat Makingکرکے روایتی طریقوں سے آبی وساہل پکڑ کر سخت محنت اور مشقت سے کراچی ودیگر مارکیٹوں تک پہنچا کر روایتی طریقوں پرانحصار کرنے پر مجبور ہیں۔
اس وقت ساحل بلوچستان سے براہ راست وابسطہ کل وقتی ماہی گیروں کی تعداد27040ہیں۔جن کی سالانہ فی کس آمدنی 109126 روپے ہیں۔جزوی ماہی گیروں کی تعداد9638ہیں۔جن کی سالانہ فی کس آمدنی72757روپے ہیں۔اسی طرح کبھی کبھار کے ماہی گیروں کی تعداد5108ہیں۔جن کی سالانہ فی کس آمدنی36378روپے ہیں۔ اورمالی سال 2004-05 میں ان ماہی گیروں کی ماہی گیری فیس40185روپے اور کشتی لائسنس اور رجسٹریشن فیس 2168774روپے اسی طرح انجن سروس فیس 8580 روپے مقررکئے گئے۔لیکن ستم ظریفی کی انتہاء یہ ہے۔کہ ایک طرف حکومت ان ماہی گیروں سے سالانہ بھاری بھر رقم وصول کیا کرتے ہیں۔دوسری طرف ساحل بلوچستان پر غیر قانونی ٹرالرنگ وا سمنگلنگ روکنے میں بری طرح نا کام ہیں۔اس وقت ساحل پر آبی و ساہل کے غیر قانونی اسمنگلنگ و ٹرالرنگ اپنی عروج پر ہیں۔جو غیر قانونی طور پربڑی تعداد میں آبی وساہل پکڑ کر اندون ملک و بیرون ملک سمگل کرکے بھاری بھر رقم وصول کیاکرتے ہیں۔تاہم ان سے کوئی پوچھنے والے نہیں۔بے بس مقاہی ماہی گیر اپنے ہی منہ کا نوالہ طاقت ور اسمنگلروں کے ہاتھوں چھینتے دیکھ رہے ہیں۔اور نوحہ کنا کرتے ر ہے ہیں۔مگر دادرسی کرنے والا کوئی نہیں۔
مزید یہ کہ سی پیک کے توسط سے گوادر پورٹ اگر دنیا کے لئے تجارتی مقاصد کے لیئے مکمل بحال ہونگے توگوادر پورٹ پر بحری جہازوں کا ایک بڑے پیمانے پر آمد رفت کا سلسلہ شروع ہوگا۔جس سے سمندری حدود میں شدید آلودگی سے ساحل بلوچستان پر آبی حیات متاثر ہوکر ساحلی پیداوار میں کافی کمی واقع ہونگے۔اسی طرح پچاس ہزار خاندانوں کے ذرائع معاش بھی متاثر ہونگے۔سی پیک منصوبے میں مقامی ماگیروں کے معاشی مستقبل کو مد نظر رکھتے ہو ئے متبادل روز گار کے فراہمی حکومت وقت ذمہ داری ہے۔ کیونکہ بلوچستان میں پہلے سے بے روزگا ری شدت اختیار کرتی جارہی ہے۔
مزید براں،ساحل بلوچستان کی اہمیت و افادیت کو پرکھتے ہوئے سی پیک منصوبے کی تحت ساحل پر جہازرانی صنعت قائم کرکے مقامی افراد کو روز گار فراہم کرنے اورگوادر و لسبیلہ میںآبی حیات سے متعلق علوم خاص طور ماہی گیری صنعت کو وسعت دینے کے لئیے ٹیکنیکل انسٹیٹوٹ ، کالجز، یونیورسٹیاں قائم کرکے لوگوں کوبراہ راست اسی صنعت سے وابسطہ کرکے زیادہ سے زیادہ زر مبادلہ کما کرملکی معیشت کو مزید مستحکم کرکے بلوچستان کو حقیقی بنیادوں پر ترقی و خوشحالی کے شاہراہ پر گامزن کرے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے