گوادر جو کبھی اپنے خوب صورت، پُرسکون ساحلِ سمندر کی وجہ سے پہچانا جاتا تھا، اب تیزی سے مادّی ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ گوادر کا سمندر اب مچھلی اور سیپی نکالنے کے لیے نہیں، عالمی تجارت کے لیے ایک ایسا دَر بننے والا ہے جس کے پیچھے خزانہ ہی خزانہ ہے۔ اس خزانے کے لیے ہر سطح پر دوڑ لگی ہے۔ شور ہے کہ گوادر تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ وہاں کی مٹی سونا بن چکی ہے مگر کیا ترقی صرف مادّی وسائل سے ہوتی ہے۔ گوادر کے باسیوں کو اس کا پورا ادراک ہے کہ ترقی کا سفینہ علم، ادب اور خصوصاً دانش اور بصیرت کے بغیر صحیح راہ پر گامزن نہیں ہوسکتا۔ ساری ٹیکنالوجی، تمام دولت جو اس پر لگائی جا رہی ہے، اس ٹائٹینک کو ڈوبنے سے نہیں بچا سکتی، اگر اس پر دُور تک دیکھنے والی بصیرت افروز نگاہیں موجود نہ ہوں۔ جبھی چوتھے گوادر کتاب میلے میں ادب، تعلیم، مصوری، موسیقی، ساحل کی ریت پر مجسمہ سازی کے ساتھ ساتھ ’’انسانی وسائل کی ترقی کے تقاضے‘‘ جیسے موضوع کا بھی بھرپور احاطہ کیا گیا تھا۔ کتاب میلے میں جہاں ایک طرف شامیانے میں کتاب سے سجے اسٹال پر بچے، نوجوان، بزرگ اور خواتین ذوق و شوق سے کتابیں خرید رہے تھے تو دوسری طرف سیّد ظہور شاہ ہاشمی آڈیٹوریم میں مذاکرے، مباحثے، تھیٹر، فلم اور کتابوں کی رونمائی جاری تھی۔ ایک اور عبدالمجید سہرابی ہال میں بہت اعلیٰ مصوری کے شاہ کار سجے ہوئے تھے جن میں بلوچستان کو تخلیق کا مرکز بنایا گیا تھا۔ مشاعرے کا وسیع پنڈال سامعین کے ذوق و شوق، برمحل داد اور ہوٹ سے ایک ایسا منظر پیدا کر گیا جو، اب کم کم نظر آتا ہے۔
گوادر کتاب میلے کو ہر سال وہاں کی ایک غیر سرکاری انجمن ’’گوادر رولر کمیونٹی ڈیولپمنٹ کونسل‘‘ بڑی ثابت قدمی سے اپنے وسائل سے منعقد کر رہی ہے۔ ہر سال یہ میلہ پہلے سے زیادہ وسیع اور وقیع ہوتا جا رہا ہے۔ منتظمین کو شکایت تھی کہ اس خوب صورت عوامی، علمی و ادبی تقریب کے لیے بار بار درخواست کے باوجود وفاقی حکومت خصوصاً اکادمی ادبیات پاکستان نے ان سے عدم تعاون کا رویہ اپنائے رکھا۔
اس سال یہ میلہ اس لیے بھی اہم تھا کہ اسے حال ہی میں وفات پانے والے عظیم دانش ور ڈاکٹر عبداللہ جان جمالدینی سے منسوب کیا گیا تھا۔ افتتاحی تقریب بنام پروفیسر عبداللہ جان جمالدینی کے عنوان سے منعقد ہوئی جس میں پورے پاکستان بھر سے اسکالرز کی نمائندگی تھی۔ گوادر سے روشن خیال نوجوان ممبر صوبائی اسمبلی میر حمل کلمتی کے ساتھ بلوچستان پورٹ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے چیئرمین دوستین جمالدینی، صحافی اور عالمی شہرت یافتہ ناول نگار محمد حنیف، متعدد کتابوں کے مصنف دانش ور ڈاکٹر شاہ محمد مری، آر سی ڈی کے صدر خدا بخش ہاشم اور راقم الحروف سٹیج پر موجود تھے۔ سہ پہر کو ایک مذاکرہ ’’بلوچستان ‘بعد از پروفیسر عبداللہ جان جمالدینی‘‘ منعقد ہوا۔ جس کے پانچ حصے تھے: تعلیم، صحافت، ادب، خواتین، سیاست۔ یہ پانچ شعبے ہیں جس میں ڈاکٹر عبداللہ جان جمالدینی کی خدمات کو نہ صرف خراجِ تحسین پیش کیا گیا بلکہ آج اور ان کے انتقال کے بعد کی صورتِ حال پر اس حوالے سے غور و خوض کیا گیا کہ جو روشنی اس عظیم دانش ور نے پھیلائی ہے، اُسے قائم رکھنے کے لیے کیا اقدامات ہونے چاہییں۔ ہر موضوع کے دوران حاضرین کو کاغذ اور قلم فراہم کیا گیا کہ وہ اپنی تجاویز مذکورہ عنوانات کے تحت لکھ کر منتظمین کے حوالے کردیں، اس طرح ۸۰ تجاویز موصول ہوئیں جنھیں کانفرنس میں باقاعدہ قرارداد کی شکل میں پیش کیا گیا اور ’’اعلانِ گوادر‘‘ (گوادر ڈیکلریشن) کا نام دیا گیا۔ جن ماہرین نے مقالات پیش کیے، اُن میں تعلیم پر پروفیسر سحر انصاری کا مقالہ جنید جمالدینی نے پڑھا۔ صحافت پر ڈاکٹر بہرام غوری نے اپنا مقالہ پیش کیا۔ ادب پر احمد سلیم کا مقالہ وحید ظہیر نے پڑھا۔ خواتین پر ڈاکٹر فاطمہ حسن نے ڈاکٹر عبداللہ جان جمالدینی کی اُن کاوشوں کا احاطہ کیا جو اُنھوں نے بلوچستان میں لڑکیوں کی تعلیم اور بلوچستان یونی ورسٹی میں مخلوط تعلیم کے لیے پروفیسر کرار حسین کے ساتھی کی حیثیت سے اور ان کے بعد بھی جاری رکھی جس کے اثرات بلوچستان میں لڑکیوں کی تعلیم کے میدان میں سرگرم ہونے کی شکل میں آج واضح نظر آ رہے ہیں۔ ڈاکٹر شاہ محمد مری، جو پروفیسر جمالدینی کے جاری کردہ رسالوں کے مدیر بھی ہیں، نے ان کی سیاسی زندگی پر روشنی ڈالتے ہوئے جمہوری عمل میں تسلسل اور کرپشن کے خاتمے کو مرکزِ گفتگو بنایا اور خارجہ پالیسی، بلوچستان کے وسائل اور وہاں کے مسائل کے سیاسی حل کو عبداللہ جان جمالدینی کی فکر کا تسلسل قرار دیا۔
میلے کے دوران پھلان عمر کے مجموعۂ کلام ’’رشتاگ‘‘ جو بلوچی میں مزاحیہ شاعری پر مشتمل تھا اور وحید نور کے مجموعۂ کلام ’’سکوت بول اٹھا‘‘ کی تقریب رونمائی بھی ہوئی۔
مذاکروں میں ایک سیشن ’’پاکستانی معاشرے میں ادب کی اثر پذیری‘‘ کے عنوان سے ہوا جس کے ناظم وحید ظہیر تھے جب کہ شرکائے گفتگو میں محمد حنیف، پروفیسر جاوید اختر، پروفیسر ڈاکٹر اے آر داد اور راقم الحروف تھے۔ ایک اور سیشن ’’جدید افسانے کا منظرنامہ‘‘ کے عنوان سے منعقد ہوا جس میں ڈاکٹر آصف فرخی، پروفیسر غنی پرواز اور لاہور سے آئی ہوئی افسانہ نگار فرحت پروین نے گفتگو کی۔ ایک بہت اہم مذاکرہ ’’بلوچستان: انسانی وسائل کی ترقی کے تقاضے‘‘ کے عنوان سے ہوا جس کے شرکا دوستین خان جمالدینی، ڈاکٹر آصف فرخی، ڈاکٹر حفیظ جمالی، خدا بخش ہاشم اور احمد اقبال بلوچ تھے۔ اس مذاکرے میں سائنٹفک انداز میں تاریخی پس منظر، سماجیاتی تحقیق، جدید ترقیاتی علوم کے حوالوں سے انسانی وسائل خصوصاً وہاں کے باسیوں کو گوادر کی ترقی میں حصے دار بنانے پر مدبرانہ گفتگو ہوئی۔ یہ نہایت کارآمد سیشن تھا جس میں زمینی حقائق کو مدنظر رکھا گیا تھا۔
ان سیشنز کے علاوہ بحرِ ہند میں بلوچ ڈایاسپورا پر ماہرِ بشریات عمیم لطفی نے روشنی ڈالی۔ اس موقعے پر طلبہ و طالبات کی پینٹنگ ورکشاپ اور خواتین کے لیے مخصوص پروگرام جن میں تھیٹر شو، کلچرل شو، ٹیبلوز بھی پیش کیے گئے۔ راک دی بینڈ گروپ کراچی گرلز کالج اور تربت یونی ورسٹی، گوادر کیمپس کی طالبات نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ تھیٹر بھی راک دی بینڈ کراچی نے پیش کیا۔ بلوچی شارٹ فلمز کی نمائش بھی ہوئی جو خیبر جان آرٹس اکیڈمی، بام پروڈکشن، از ازمان کی پیش کش تھیں۔
اردو بلوچی مشاعرہ اس تقریب کا سب سے مقبول حصہ تھا جو وسیع پنڈال میں منعقد ہوا۔ سامعین کی خاصی تعداد وہاں موجود تھی اور آخر تک پنڈال بھرا ہوا تھا۔ اس مشاعرے میں پورے بلوچستان کے شعرا کے علاوہ کراچی سے افضال احمد سیّد، تنویر انجم، فاطمہ حسن، وحید نور، لاہور سے فرحت پروین، کوئٹہ سے بیرم غوری اور وحید ظہیر شریک تھے۔
ایک اور مشاعرہ ’’مزاحیہ بلوچی شاعری‘‘ کا بھی منعقد ہوا اور بہت پسند کیا گیا۔ یہ چوتھا چار روزہ گوادر کتاب میلہ آر سی ڈی سی غیرسرکاری تنظیم کے عہدے داران خصوصاً ناصر رحیم سہرابی، عبداللہ عثمان، نیاز ابراہیم، عبدالوہاب، عبدالسلام، عبدالرزاق اور دیگر ساتھیوں کی ادب و آرٹس سے سنجیدہ، پُرخلوص وابستگی کی اعلیٰ مثال پیش کر گیا، جہاں نہ دکھاوا تھا، نہ بدنظمی، پورا گوادر میزبان بنا ہوا تھا۔
کتابوں کے اسٹال پر بڑی نمائندگی نیشنل بک فاؤنڈیشن اور انجمن ترقیِ اردو پاکستان کی تھی جن سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ گوادر میں ایک مستقل کتابوں کی فروخت کا مرکز قائم کریں۔ منتظمین نے ان دونوں اداروں کے عملی تعاون کا بھی شکریہ ادا کیا۔ انھوں نے صدرِ پاکستان ممنون حسین، وزیراعظم کے مشیر برائے قومی تاریخ و ادبی ورثہ عرفان صدیقی سے درخواست کی کہ بلوچستان کے علمی و ادبی اداروں کو سرکاری سرپرستی بھی مہیا کریں۔ خصوصاً اکادمی ادبیات پاکستان کی جانب سے گوادر کتاب میلے کو نظرانداز نہ کیا جائے۔
دیگر سٹال لگانے والوں میں پشوکان پبلی کیشنز، استین پبلی کیشنز، آکسفورڈ یونی ورسٹی پریس، تاریخ پبلی کیشنز، اردو سائنس بورڈ، سٹی پریس، سچکان پبلی کیشنز، سنگ اکیڈمی، مہردر، فکشن ہاؤس، البدر پبلی کیشنز (گوادر)، توکل اکیڈمی شامل تھے۔
میلے کا ایک خصوصی حصہ وہ تقریب بھی تھی جس کا چائنہ اوورسیز پورٹ ہولڈنگ کمپنی نے مندوبین کے اعزاز میں استقبالیہ اور عشایئے کی صورت میں اہتمام کیا تھا۔ اس موقعے پر ان کے چیئرمین/ سی ای او ژانگ باؤ ژونگ (Zhangbao Zhong) نے خیرمقدمی خطاب میں کتاب میلے اور کانفرنس کے انعقاد کو سراہا۔ پاک چائنا دوستی کو امر قرار قرار دیا۔ پھر دونوں ملکوں کی ثقافت پر مشتمل فلم اور موسیقی بھی پیش کی گئی۔ چینی میزبان کی طرف سے ڈاکٹر فاطمہ حسن کو چین کے صدر زی جن پنگ (Xi Jinping)کی تصنیف کردہ کتاب The Governance of China کا تحفہ پیش کیا گیا۔
اس موقعے پر ڈاکٹر بیرم غوری نے مندوبین کی نمائندگی کرتے ہوئے شکریہ ادا کیا۔ تقریب کے اختتام پر گوادر پورٹ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے چیئرمین دوستین جمالدینی، چائنہ اوورسیز پورٹ ہولڈنگ کمپنی اور ٹویوٹا موٹرز کے درمیان ایک یادداشتِ مفاہمت پر بھی دستخط ہوئے۔ دوستین جمالدینی نے اپنے خطاب میں گوادر میں کتاب گھر قائم کرنے کے لیے ٹویوٹا موٹرز اور چائنہ اوورسیز پورٹ ہولڈنگ کمپنی نے انجمن ترقیِ اردو پاکستان سے تعاون کی تجویز بھی پیش کی۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے