Gwadar Declaration

تعلیم

۔1۔ ایک ہی کلاس میں اور اگلی کلاس میں ایک موضوع کی ریپی ٹیشن کا خاتمہ ہو۔ اور سختی سے ہر ڈسپلن کی کتاب میں اس سے متعلقہ مواد موجود ہو۔
۔2۔ سکول کے چھ سالوں میں بچہ اس سطح تک پہنچے جس میں آج کل آٹھویں جماعت میں پہنچتا ہے۔
۔3۔ تعلیم مفت، سائنسی اور مادری زبان میں اور ہائر سیکنڈری سطح تک لازمی ہو۔
۔4۔ ٹیکسٹ بک بورڈ کی تشکیل ازسرِنو کی جائے، جس میں ماہرینِ نفسیات بھی شامل ہوں، ہر کتاب اسی ادارے کے تحت سرکاری پرنٹنگ پریس سے شائع ہو۔ سرکاری پرنٹنگ پریس کی استطاعت میں اضافہ ہو۔ سرکاری اشاعت کے بعد کتابوں کو محکمۂ تعلیم کے حوالے کیا جائے جو انھیں ہر سکول وکالج میں بچوں میں مفت تقسیم کرے۔
۔5۔ ہر سال نصابِ تعلیم پر نظرِ ثانی کی جائے اور اسے جدید سائنسی تقاضوں کے مطابق مرتب کیا جائے۔
۔6۔ نصاب نئی نئی سائنسی ایجادات، اکتشافات اور مظاہر سے مطابقت میں ہو اور کتابیں رنگین تصاویر سے مزین ہوں۔
۔7۔ پرائمری سطح تک صرف تین کتابیں ہوں: انگلش، سائنس اور ریاضی۔
۔8۔ ہیومنٹی، اورتکنیکی تعلیم پر روزِ اوّل سے زور دیا جائے۔ سکول میں بنیادی انسانی حقوق بالخصوص عورتوں کے حقوق کے بارے میں جان کاری ملے۔ چائلڈ ابیوز پر بات ہو۔ ناشناس اور افسانوی کرداروں کے بجائے بچوں کو اُن کے اپنے ہیروں، داناؤں اور شاعروں ادیبوں کے بارے میں پڑھایا جائے۔ اسی طرح بلوچستان میں سمندری حیات، لائیوسٹاک، معدنی وسائل اور آرکیالوجی کی دریافتوں کو پڑھانا اشد ضروری ہو۔
۔9۔ لائبریری، سائنس لیبارٹری، کمپیوٹر لیب، میڈیکل سینٹر، کھیل کے میدان، کھیلوں کے سامان، میوزک، پینٹنگز اور ورک شاپس کا ہرسکول میں بندوبست ہو۔ اور بچوں کی عمر اور ذہانت کی سطح کے مطابق انھیں سکول کے اندر یہ سہولتیں میسر ہوں۔ اور انھیں ان سرگرمیوں کے لیے کافی وقت دیا جائے۔ ٹائم ٹیبل اس طرح ترتیب دیے جائیں کہ بچوں کی دل چسپی کسی صورت کم نہ ہو۔
۔10۔ سکول بلڈنگ میں کشادگی، صحت مندی، صفائی اور حفاظت کا خاص خیال رکھا جائے۔ بچوں کی مختلف نصابی و ہم نصابی سرگرمیوں کے لیے تمام سہولتوں کا بندوبست ہو۔سکول آبادی سے بہت قریب ہو اور ٹرانسپورٹ وغیرہ کی کم سے کم ضرورت ہو۔
۔11۔ ٹیچرز کی بھرتی میں خواتین ٹیچرز کو اہمیت اور فوقیت دی جائے۔ اُن کی تعلیمی ڈگری اہلیت اور تنخواہیں بڑھاتے رہنا چاہیے۔ ان کی بھرتیاں ٹرانسپیرنٹ اور میرٹ پر ہوں۔ اُس کی سماجی حیثیت بڑھائی جائے۔ اُنھیں مراعات دی جائیں، اُنھیں رہائش، صحت اور ٹرانسپورٹ کی سہولتیں فراہم کی جائیں۔ نیز ان کو بہت اچھا سروس سٹرکچر مہیا کیا جائے۔
۔12۔ بچوں کی نصابی اور ہم نصابی تربیت کے لیے ضروری ہے کہ ٹیچرز بہت تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ ہوں۔ یہ بھی ضروری ہے کہ اُنھیں بچوں کی نفسیات سے مکمل آگہی ہو۔سکول میں بچوں کے لیے مناسب کھلونوں، فلموں، آڈیو وژیوئل آلات اور ڈراموں سے ہمہ وقت آگاہ کیا جائے اور ان کے ذریعے انھیں تعلیم دی جائے۔ وہ نصاب کے متعلق ہر وقت اَپ ٹو ڈیٹ رہیں۔
۔13۔ مقامی حکومتوں سے ہم کاری میں ہر سکول کی ایک عوامی تعلیمی کمیٹی ہو جس میں والدین، سماجی کارکن، سیاسی ورکر اور ماہرینِ تعلیم شامل ہوں جو بچوں کی تربیت کے معیار، سہولتوں کی فراہمی اور مسائل کے حل کے لیے کوشاں ہوں۔ اس کمیٹی کو انتظامی اور فنانشل اختیارات حاصل ہوں۔ ان کمیٹیوں میں خواتین کی نمائندگی زیادہ سے زیادہ ہو۔
۔14۔ بیت بازی، لفظ سازی،، مضمون نویسی، پینٹنگز، کھیلوں، میوزک، ڈراما اور تقریری مقابلے اسکول کے اندر اور بین المدارس سطح پر منعقد ہوں۔
۔13۔ امتحانات کو ہوّا نہ بنایا جائے۔ بالخصوص سالانہ امتحانات کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ سالانہ امتحانات کے نظام بجائے سمسٹر سسٹم نافذ کیا جائے۔ امتحانات کے اپنے موجود اداروں کو شفاف اور مضبوط اور جواب دہ بنایا جائے اور نیشنل ٹیسٹنگ سروسز جیسے اداروں کا خاتمہ ہو۔ ہر سمسٹر6 ماہ پر مشتمل ہو اور ہر تین ماہ میں mid-semesterکا کورس ختم کیا جائے اور دوسرے تین ماہ میں final کورس ختم کیا جائے۔ اور مسلسل evaluation سسٹم وضع کیا جائے۔ تعلیم degree-oriented ہونے کے بجائے learning oriented ہو۔
۔14۔ تمام اضلاع میں اعلیٰ تعلیمی درس گاہیں ہوں۔
۔15۔ صوبائی حکومت بنیادی تعلیم کو لازمی بنائے۔
۔16۔ پرائمری سطح پر قابل اور اہل اساتذہ کو تعینات کیا جائے۔
۔17۔ تعلیمی اداروں کی عمارتیں جدید سہولتوں سے مزین ہوں۔ اُن میں لیبارٹریوں اور لائبریریوں پر لازمی توجہ دی جائے۔
۔18۔ ہائیر سیکنڈری تعلیمی اداروں میں سال میں دو مرتبہ کتب میلوں کا انعقاد کیا جائے۔
۔19۔ علاقوں کے قدیم ناموں، قدیم کھیلوں اور بلوچی ثقافتی رنگ کو برقرار رکھا جائے۔

ادب

۔1۔ دوسری زبانوں کے ادب کے تراجم بلوچی میں کیے جائیں اور بلوچی شاہ کاروں کے ترجمے دوسری زبانوں میں کیے جائیں۔
۔2۔ اکادمی ادبیات کی طرف سے بلوچی ادب کو شائع کیا جائے، نئے لکھنے والوں خصوصاً نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔
۔3۔ ہر شہر میں ادبی و کتب میلے منعقد کیے جائیں ۔
۔4۔ نیشنل بک فاؤنڈیشن گوادر میں اپنی کتابوں کی فروخت کا مرکز قائم کرے۔
۔5۔ علم و دانش کی سطح پر بلوچستان سے باہر کے دانش وروں کی شمولیت اور باہمی مشورے کا ماحول پیدا کیا جائے۔
۔6۔ تحقیق و تخلیق کی مکمل آزادی ہونی چاہیے۔
۔7۔ بلوچی ادب کی نظرانداز اصناف کو بحال کرنے کی کوشش کی جائے اور تنقید نگاری کو اہمیت دی جائے۔
۔8۔ افسانہ اور ناول پر توجہ دی جائے۔
۔9۔ کتب و رسائل کے گیٹ اَپ پر توجہ دی جائے۔
۔10۔ ادب میں معاشرے کے انعکاس پر توجہ دی جائے۔
۔11۔ بلوچی کلاسیک پر زیادہ سے زیادہ توجہ دی جائے۔
۔12۔ اکادمی ادبیات کی طرح ہر سال کے ادب پر مشتمل ایک رسالے کا اجرا ہونا چاہیے۔
۔13۔ ماہانہ ادبی نشستوں کا انعقاد کیا جائے۔
۔14۔ سکولوں میں ادبی مباحثے اور مقابلے کیے جائیں۔
۔15۔ ادب سے وابستہ سکول طلبہ کو پاکستان کا ٹوئر کروایا جائے۔
۔16۔ ادیبوں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔
۔17۔ ادبی و تحقیقی کاموں پر ایوارڈز دیے جائیں۔
۔18۔ گوادر میں سڑکوں اور اہم جگہوں کے نام شعرا و ادبا کے نام سے منسوب کیے جائیں۔
۔19۔ بچوں اور عورتوں کے ادب پر توجہ دی جائے۔
۔20۔ ادیب کے ساتھ نشستوں کا اہتمام ہوں۔
۔21۔ ادیبوں کی تخلیقات، روزناموں اور ماہناموں میں شائع کیے جائیں۔ اور ان کے کتابوں کی اشاعت اور تقسیم کا بندوبست کیا جائے۔
۔22۔ ریسرچ سینٹرز بنائے جائیں جن میں بلوچی ادب، تاریخ اور قوم پر تحقیق کی جائے۔
۔23۔ نئی نسل کو ادب کی طرف متوجہ اور مائل کیا جائے۔
۔24۔ بلوچی زبان و ادب کی کلاسیں منعقد ہوں۔

میڈیا

۔1۔ نجی چینل اور سرکاری میڈیا بلوچستان کے مسائل کو پرائم ٹائم کا حصہ بنائیں اور بلوچستان کے مسائل پر بلوچستان کے صحافیوں اور اہلِ دانش کو گفتگو کے لیے مدعو کیا جائے۔
۔2۔ بلوچستان سے پیمرا کے لیے جتنا ریونیو اکٹھا ہوتا ہے، اتنا ہی وقت پرائم ٹائم میں بلوچستان کے مسائل کو دیا جائے۔
۔3۔ پیمرا کے ریجنل آفس کو بلوچستان میں فعال کردار دیا جائے اور ان کی آرا کو مرکزی پیمرا اہمیت دے۔
۔4۔ پاکستان بھر میں مادری زبانوں کے اخبار و رسائل کی حوصلہ افزائی کی جائے اور انھیں ضروری مدد کی جائے۔
۔5۔ بلوچستان میں ابلاغِ عامہ کی تعلیم کو کالج کی سطح پر رائج کیا جائے۔
۔6۔ پیشہ ورانہ صحافت کی تربیت کے لیے ڈویژنل سطح پر اکیڈمیاں قائم کی جائیں۔
۔7۔ صحافت کے تقاضوں کے مطابق معاملات پر فریقین کی آرا کے آزادانہ اظہار کے لیے گنجائش پیدا کی جائے۔
۔8۔ عوامی مفادات کو ٹھیس پہنچانے والے پروگراموں کی مانیٹرنگ ہونی چاہیے۔
۔9۔ سماج میں موجود نسلی، لسانی اورفرقہ ورانہ تضادات کو حل کرنے کے لیے میڈیا کا استعمال اور بنیادی ڈھانچے (انفراسٹرکچر) کی فراہمی میں آسانی پیدا کی جائے۔
۔10۔ بلوچستان سے نکلنے والے اخبارات کا ادارتی صفحہ بلوچستان کے معاملات کا عکاس ہونا چاہیے۔ جب کہ ان کا ایڈیٹوریل بورڈ بھی بلوچستان سے ہو۔
۔11۔ صحافیوں کو روزگار کی ضمانت دی جائے، سہولتیں بڑھائی جائیں۔
۔12۔ سماجی ترقی کی مطلوبہ سطح پر پہنچنے تک خواتین صحافیوں کو سماجی معاملات کی رپورٹنگ تک محدود رکھا جائے۔
۔13۔ حادثات کی رپورٹنگ پر مامور صحافیوں کو حفاظتی کِٹ کے بغیر رپورٹنگ پر نہ بھیجا جائے۔
۔14۔ شہید صحافیوں کے پس ماندگان کی مالی پریشانیوں کا فوری معقول ازالہ کیا جائے۔ زخمیوں کے علاج معالجے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا جائے۔
۔15۔ اشتہارات کی پالیسی حقیقت پسندانہ ہونی چاہیے اور اس میں شفافیت لائی جائے۔
۔16۔ میڈیا کی ریٹنگ کے لیے بلوچستان میں بھی ریگولیٹروں کو یقینی بنایا جائے۔
۔17۔ میڈیا ہاؤسز کو پریشر گروپس سے آزاد کیا جائے۔

خواتین

۔1۔ لڑکیوں کو لازمی طور پر ورثا کی جائیداد میں سے حصہ دلایا جائے۔ جائیداد سے محروم کرنے والوں کو سزا ہو۔
۔2۔ عورتوں پر تشدد بالخصوص ’’سیاہ کاری‘‘ کی شدید مخالفت کی جائے۔ خلع کے استعمال کے لیے قانونی اور عدالتی طریقِ کار کو آسان بنایا جائے۔ عورتوں کے لیے الگ جیلیں بنائی جائیں۔ پولیس میں عورتوں کی تعداد بڑھائی جائے۔ اور ماضی میں قائم شدہ خواتین تھانے بحال ہوں۔ خواتین جج اور وکیل بڑھائے جائیں۔
۔3۔ بلوچستان کے دیہی علاقوں میں ’’زچہ و بچہ‘‘ کے لیے جدید سہولتوں کاقیام اشد ضروری ہے۔
۔4۔ خواتین کے لیے کھیلوں، تفریح گاہوں اور لائبریریوں کے قیام کو یقینی بنایا جائے۔
۔5۔ لب اور ولور کا خاتمہ ہو۔
۔6۔ قتل کے تصفیہ میں عورتوں کو بطور خوں بہا دینے کی شدید مخالفت کی جائے۔
۔7۔ کم سنی اور وٹہ سٹہ کی شادیوں پر پابندی لگائی جائے۔
۔8۔ آب نوشی کی سکیمیں زیادہ سے زیادہ اور آبادی کے اندر بنائی جائیں تاکہ عورتوں کو میلوں دُور سے پانی لانے کے عذاب سے چھٹکارا مل سکے۔
۔9۔ گھریلو استعمال کے لیے گیس کی فراہمی یقینی ہو تاکہ جنگلات کا تحفظ بھی ہو اور عورتوں کو دور دراز لکڑیاں کاٹنے کی مشقت سے نجات بھی ملے۔
۔10۔ جنسی زیادتی (اور خاص بچوں کے ساتھ) کی مخالفت کی جائے۔ اس کے لیے قانون سازی کی جائے۔
۔11۔ عدالتی ڈھانچے کو بلوچستان بھر میں متحرک کیا جائے تاکہ جرگے کے کالے قانون سے نجات مل سکے۔
۔12۔ ہر بچہ اور بچی کو میٹرک تک تعلیم لازمی، مفت، سائنسی اور مادری زبانوں میں دی جائے۔
۔13۔ ہم سیاسی پارٹیوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ پنجاب اسمبلی کی طرح بلوچستان اسمبلی سے عورتوں کے حقوق کے لیے قانون سازی کریں۔
۔14۔ منتخب جمہوری اداروں میں عورتوں کی مخصوص نشستوں میں اضافہ کیا جائے۔
۔15۔ بلوچستان میں جب تک صنعت کاری نہیں ہوتی، جب تک کارخانے نہیں لگتے، اُس وقت تک بالخصوص عورتوں کی بے روزگاری کا مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔
۔16۔ بیوہ عورتوں اور یتیم بچوں کی معاشی کفالت کا بندوبست کیا جائے۔
۔17۔ عورتوں کو یونی ورسٹی تک تعلیم کی خصوصی سہولیات دی جائیں۔
۔18۔ عورتوں کے لیے الگ یونی ورسٹی و کالج قائم کیے جائیں۔
۔19۔ عورتوں کی تنظیموں کو مضبوط کیا جائے۔
۔20۔ عورتوں کے ادب پر توجہ کی جائے اور ان کے ادب میں ان کے نمایاں کارناموں کو اُجاگر کیا جائے۔

سیاست

۔1۔ جمہوری عمل میں تسلسل کے لیے کرپشن کے خاتمے کو ایک مسلسل عمل بنایا جائے تاکہ اس الزام کے تحت جمہوری عمل کو معطل کرنے کا جواز باقی نہ رہ سکے۔
۔2۔ فیڈریشن کی روح یعنی سینیٹ کو قومی اسمبلی کے برابر اختیارات دیے جائیں اور پارٹیاں اس نکتے کو اپنے منشور میں شامل کرلیں۔
۔3۔ سینیٹ کے الیکشن بھی قومی اور صوبائی اسمبلی کی طرح براہِ راست کرائے جائیں۔
۔4۔ منتخب اداروں میں عورتوں، کسانوں، مزدوروں وغیرہ کی نشستیں آبادی میں اُن کے تناسب کے مطابق مخصوص کی جائیں۔
۔5۔ قومی اسمبلی میں بلوچستان کی نشستوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے۔
۔6۔ صوبوں کو زیادہ سے زیادہ خود مختاری دی جائے اور اُن کے سیاسی، معاشی حقوق یقینی بنائے جائیں، نیز اٹھارویں ترمیم پر اُس کی روح کے مطابق عمل کیا جائے۔
۔7۔ بلوچستان صوبائی اسمبلی اٹھارویں آئینی ترمیم کی روشنی میں قانون سازی کرے۔
۔8۔ آئین کے مطابق جو محکمے صوبوں کو جانے ہیں، انھیں فوری طور پر صوبوں کو منتقل کیا جائے۔مزید محکمے وفاق سے صوبوں کو منتقل ہوں۔
۔9۔ مشترکہ مفادات کی کونسل میں زیرِ التوا مسائل کو فوری حل کیا جائے۔
۔10۔ سمندری وسائل اور تیل و گیس صوبوں کے کنٹرول میں دیے جائیں۔
۔11۔ ضلع گوادر میں دیگر صوبوں اور دیگر اضلاع سے آکر آباد ہونے کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ انہیںیہاں ووٹ کا حق نہ دینے سے متعلق صوبائی سطح پر قانون سازی کی جائے۔
۔12۔ الیکشن میں خواتین ووٹرز پر سماجی یا قبائلی پابندیاں ہٹانے کے لیے سیاسی پارٹیاں اپنا کردار ادا کریں۔
۔13۔ سیاسی پارٹیاں اپنے رہنماؤں اور کارکنوں کی مسلسل تربیت کا انتظام کریں۔
۔14۔ نفرت انگیز وال چاکنگ پر پابندی لگائی جائے۔
۔15۔ الیکشن میں کامیاب ہونے والی سیاسی پارٹیاں اپنے انتخابی منشور پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں۔
۔16۔ بلوچستان کا مسئلہ سیاسی ہے اور اس کو سیاسی طور پر حل کیا جائے۔
۔17۔ پارٹی فنڈز کے آڈٹ کو قانون سازی کے ذریعے لازمی قرار دیا جائے۔
۔18۔ طلبہ یونین پر پابندی ختم کی جائے۔
۔19۔ سیاسی جماعتوں کی میڈیا کے ذریعے کردار کشی بند کی جائے۔
۔20۔ ملک کی داخلی اور خارجی پالیسی کو عوامی اُمنگوں کے مطابق بنایا جائے۔
۔21۔ بلوچستان کے اہم مسائل پر ایک مشترکہ رائے مرتب کرنے کے لیے بلوچستان کی تمام سیاسی جماعتیں ایک کانفرنس منعقد کریں۔ اور اس عمل کو ہر چھ ماہ بعد دوہراتی رہیں۔
۔22۔ سیاسی جماعتوں کی مرکزی کمیٹی اور دیگر اداروں میں مزدوروں، خواتین، دانش وروں اور کسانوں کو نمائندگی دی جائے۔
۔23۔ سیاسی جماعتوں کے داخلی انتخابات اُن کے منشور کے مطابق الیکشن کمیشن کے زیرِ نگرانی کیے جائیں۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے