دیا کہتا رہا ، چپ تھے دریچے
پتنگوں نے سنے خوشبو کے قصے

ان ہونٹوں پر تبسم کھلتے کھلتے
بدل جاتے ہیں انگوروں میں غنچے

یہ ساحل پہلے بھی دیکھا ہوا ہے
مگر پہلے یہاں دیوار و در تھے

کوئی سلوٹ نہیں دریا پہ لیکن
کنول رکھے ہیں پانی پر قدم کے

میں جل لے کر بناوں تیری صورت
جو رنگوں میں ادھوری رہ گئی ہے

یہاں آکر ہیں حیراں شام کے سنگ
کسی انجان بستی سے یہ رستے

یہ وہ موسم ہے بچھڑی صورتوں کے
بکھر جاتے ہیں آوازوں کے پتے

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے