سنا رہا تھا کہانی سنانے والا کوئی
اور اس کہانی میں تھا سچ بتانے والا کوئی

یہ شام بھی بڑی مصروفیت میں گزری ہے
سو یاد آیا نہیں یاد آنے والا کوئی

یہ منحرف ہے پرندوں کی دوستی سے بہت
ہے اس شجر پہ برا وقت آنے والا کوئی

گزر ہوا ہے یہ کس بے لحاظ بستی سے
ملا نہ ایک بھی پانی پلانے والا کوئی

شکستہ ناؤ میں بیٹھا تھا ایک اداس سا شخص
اور اس کے پاس تھا نقشہ خزانے والا کوئی

تم اپنی آنکھ کا صدقہ اتار لینا کبھی
کہ آگیا ہے سمندر چرانے والا کوئی

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے