سچ کو سچ ہونے نہیں دیتے ہیں
اپنے لبادوں پہ
جو ہم سچ پہ چڑھائے ہوئے ہیں
فیصلے سب اپنے کئے جاتے ہیں
خود کو، ہر رِشتے کو
اِن کہنہ ، گرانبار لبادوں کی
اِطاعت میں دئیے جاتے ہیں

مارنا، کاٹنا
ہاتھوں سے گلا گھونٹنا
اِنسان کو، رِشتوں کو دبا کر رَکھنا
یہ لبادے ہیں ہمارے
کئی صدیوں سے
ہم آسودہ و قائل اِن کے
اور کہیں چُھپ کے دھڑکتے ہوئے ، روتے ہوئے دل
دَرد کی سنگینوں سے
گھائل اِن کے
سخت سوئیوں کے
انہی کہنہ لبادوں کی ہے سچ کو ہم نے
خود میں گانٹھا ہوا
ذات اپنی ، لہوا پنا بنایا ہوا

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے